1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیتن یاہو کا دورہ امریکا، مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے لیے اہم

عاصم سلیم1 مارچ 2014

امريکی ثالثی کے نتيجے ميں گزشتہ برس بحال ہونے والے اسرائيل اور فلسطين کے امن مذاکرات اس وقت انتہائی اہم مراحل سے گزر رہے ہيں۔ امن مذاکرات کے ليے مختص کردہ مدت رواں سال اپريل ميں ختم ہو رہی ہے۔

تصویر: Reuters

اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو اتوار دو مارچ کے روز امريکا کے ليے روانہ ہو رہے ہيں۔ ايران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے طويل المدتی حل کے ليے تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درميان مذاکرات اور اسرائيل و فلسطينی تنازعے کے حل کے ليے بات چيت کا عمل وہ اہم ترين معاملات ہيں، جو نيتن ياہو کے اس دورے پر مرکزی اہميت کے حامل رہيں گے۔

اسرائيلی وزير اعظم تين مارچ کو امريکی صدر باراک اوباما کے ساتھ مل رہے ہيں اور قوی امکانات ہيں کہ اس ملاقات ميں نيتن ياہو ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابين مذاکرات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کريں گے۔ تاہم ايک امريکی اخبار نيو يارک ٹائمز نے اسی ہفتے ايک سينئر اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اوباما کوشش کريں گے کہ اس ملاقات ميں نيتن ياہو اسرائيلی فلسطينی امن مذاکرات کے جلد ہی منعقد ہونے والے فيصلہ کن دور کے ليے کسی فريم ورک پر متفق ہو جائيں۔

اسرائيلی وزير اعظم تين مارچ کو امريکی صدر باراک اوباما کے ساتھ مل رہے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

اسرائيل اور فلسطين کے مابين امن عمل کو جولائی 2013ء ميں اس مقصد کے ساتھ بحال کيا گيا تھا کہ نو ماہ کے اندر کسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکے ليکن ابھی تک يہ براہ راست مذاکرات بے نتيجہ رہے ہيں۔ اب امريکی وزير خارجہ جان کيری يہ کوشش کر رہے ہيں کہ فريقين کو ايک مجوزہ فرم ورک پر متفق کر ليا جائے، جس کے تحت ڈيڈ لائن کو رواں برس کے اواخر تک بڑھايا جا سکے۔

تاحال اس فريم ورک کے مسودے کو عام نہيں کيا گيا ہے ليکن قوی امکانات ہيں کہ مسودہ اسرائيلی وزير اعظم کے سامنے اسی دورے پر جبکہ فلسطينی صدر کے سامنے سترہ مارچ کو اس وقت پيش کيا جائے، جب وہ صدر اوباما سے ملاقات کريں گے۔

تل ابيب کی بار ايلان يونيورسٹی سے تعلق رکھنے والے امريکی اسرائيلی امور کے ماہر ايٹان گلبوا کے بقول نيتن ياہو کی يہ اوباما کے ساتھ انتہائی اہم ملاقات ہے، جس سے يہ طے ہوگا کہ مستقبل کے ليے مذاکرات کا فريم ورک کيا ہوگا۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اوباما اور کيری دونوں ہی کی يہ کوشش ہو گی کہ نيتن ياہو سے اس دستاويز کی منظوری لے لی جائے اور يہ امکان ہے کہ اسرائيلی وزير اعظم اس فريم ورک کو تسليم کر ليں تاکہ انہيں تنازعے کے اس فريق کے طور پر نہ ديکھا جائے، جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل ناکام ہوا۔

بعد ازاں وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو منگل چار مارچ کے روز امريکا ميں اسرائيل نواز گروپ AIPAC سے خطاب کريں گے اور توقع ہے کہ وہ اپنے اس خطاب ميں ايران کا معاملہ اٹھائيں گے۔ ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابين جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے اسرائيلی انتظاميہ واشنگٹن کے نکتہ نظر سے متفق نہيں ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ايک اسرائيلی تھنک ٹينک ’مٹ وم‘ کے چيئرمين نمروڈ گورن کا ماننا ہے کہ نيتن ياہو امريکا ميں اپنی حمايت مزيد بڑھانے کی کوشش کريں گے تاکہ اوباما پر دباؤ برقرار رہ سکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں