امریکا، ایران سے جوہری معاہد ہ بحال نہ کرے: نیتن یاہو
23 نومبر 2020
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن سے بالواسطہ اپیل کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس نیوکلیائی معاہدے کو بحال نہ کریں جسے صدر ٹرمپ نے متروک کردیا تھا۔
اشتہار
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے کو بحال نہ کریں، جس سے صدر ٹرمپ يکطرفہ طور پر عليحدگی اختيار کر لی تھی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو ایک بالواسطہ پیغام میں کہا کہ انہیں ایران کے ساتھ سن 2015 کے اس ايٹمی معاہدے کو بحال نہیں کرنا چاہيے جس سے سن 2018 میں صدر ٹرمپ نے يکطرفہ طور پر عليحدگی اختيار کر لی تھی۔
بائیڈن، جو ممکنہ طور پر 20 جنوری کو نئے امریکی صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے والے ہیں، نے کہا تھا کہ اگر تہران یورینیم کی افزودگی سے متعلق سخت شرائط پر عمل کرتا ہے اور انہيں 'مزید سخت اور ان ميں توسیعکے ليے‘ اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور عدم استحکام پیدا کرنے والی اپنی دیگر سرگرمیوں پر موثر طریقے سے روک لگاتا ہے تو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کیا جاسکتا ہے۔
سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت دنیا کی کئی بڑی طاقتیں ایران کے متنازعہ ميزائل و جوہری پروگرام کو روک دینے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرنے پر رضامند ہو گئ تھيں۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے امریکا کو علیحدہ کر لیا کہ یہ معاہدہ نہ تو ایران کو جوہری میزائل پروگرام سے روکتا ہے اور نہ ہی عراق، لبنان، شام اور یمن میں جنگجوؤں کی مدد سے روکنے کا پابند بناتا ہے۔ امریکا ایران کی ان سرگرمیوں کو مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قرار دیتا ہے۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
10 تصاویر1 | 10
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اتوار کے روز جنوبی اسرائیل میں ایک خطاب کے دوران کہا، ”سابقہ جوہری معاہدے کو بحال نہیں کیا جانا چاہيے ۔ ہمیں ہر حال میں ایک ایسی غیر مصالحانہ پالیسی پر قائم رہنا چاہيے، جس سے ایران کے جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔"
گوکہ نتین یاہو نے جو بائیڈن کا نام نہیں لیا تاہم اسرائیلی میڈیا نے ان کے اس بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ امریکا کے نئے صدر ایران کے ساتھ اس معاہدے کو بحال نہ کریں۔
سن 2015 میں جب یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت بھی نیتن یاہو نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور اسی سال امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران اسے 'انتہائی خراب معاہدہ‘ قرار دیا تھا۔
امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود یورپی طاقتیں اس معاہدے کے دیگر فریقین روس اور چین کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کے جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
دریں اثنا سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جوبا ئیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ مشرق وسطی میں امن و استحکام کے لیے کام کرتی رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو غیر ملکی دہشت گرد قرار دینا امریکا کا بالکل درست قدم تھا کیوں کہ'سب کو معلوم ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔"
ج ا / ع س (روئٹرز)
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔