نیتن یاہو کی تقریر پرفلسطینی اور عالمی ردعمل
15 جون 2009اسرائیلی وزیر اعظم کے فلسطینی ریاست کے قیام کی مشروط رضامندی پر فلسطینی صدر محمود عباس کے مشیر یاسر ابو رابو نے کہا :’’بین الاقوامی برادری کو اس حکمت عملی کا مقابلہ کرنا چاہیے، جس کے زریعے نیتن یاہو امن کے موقعوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
انہوں نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ اپنائے۔
فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات نےنیتن یاہوکی تجویز کی مذمت کرتے ہوئے کہا :’’وہ دو ریاستی حل کے حق میں نہیں ہیں اورنہ ہی وہ یہودی ابادکاری کے عمل اور اس میں توسیع کوروکیں گے۔ مشرق وسطی میں امن کی کوششیں پہلے ہی کچھوے کی رفتار سے بڑھ رہی تھیں اور اب نیتن یاہو نے اس کچھوے کو پلٹ کر اسے پیٹھ کے بل کردیا ہے۔‘‘
دوسری طرف امریکی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے دو ریاستی حل قبول کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے امن کے قیام کی راہ میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا : ’’انہوں نے امن کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جو کہ پہلے وزرا اعظم کے دور میں نہیں تھیں۔ وہ بظاہر آبادکاری کے عمل کی توسیع پر بضد ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی اور عرب باشندے اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر قبول کریں جبکہ اس کے بیس فیصد باشندے یہودی نہیں ہیں۔‘‘
اسرائیلی وزیراعظم کے فلسطینی ریاست کے تصور پر مصر کے صدر حسنی مبارک نےشدید تنقید کی اور کہا کہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرنے کی تجویز امن کی راہ میں مزید مشکلات کھڑی کر دے گی۔
شدید بین الاقوامی دباؤ کے باعث گذشتہ روز اسرئیلی وزیر اعظم بین یامین نیتن یاہو نے ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق آمادگی ظاہر کی تھی جس کی نہ تو اپنی فوج ہوگی نہ ہی فضائی و زمینی حدود اور وسائل پر کوئی اختیار ہوگا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم نے یروشلم کی تقسیم کو بھی کسی طور قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
رپورٹ : میرا جمال
ادارت : افسراعوان