نیدرلینڈز میں جھڑپوں کے بعد اسرائیلی فٹ بال شائقین کا انخلا
8 نومبر 2024اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایمسٹرڈم میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد فٹ بال کے اسرائیلی شائقین کو واپس وطن لانے کے لیے دو خصوصی طیارے نیدرلینڈز بھیجنے کا حکم دے دیا۔ نیتن یاہو کے دفتر نے ایکس پر ایک بیان میں کہا، ''ہمارے شہریوں کی فوری مدد کے لیے دو ریسکیو طیارے بھیجے جا رہے ہیں۔ ایمسٹرڈم میں ہمارے شہریوں پر حملے کی تصاویر کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ جھڑپیں ایمسٹر ڈم میں فٹ بال کی یورپی لیگ کے ایک میچ سے قبل اور بعد میں اسرائیلی فٹ بال شائقین اور فلسطین کے حامی مظاہریں کے درمیان جمعرات کی شب ہوئیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا، ''وزیر اعظم نیتن یاہو اس ہولناک واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈچ حکومت اور سکیورٹی فورسز فسادیوں کے خلاف بھرپور اور فوری کارروائی کریں اور ہمارے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔‘‘
ڈچ وزیر اعظم کی جانب سے حملوں کی مذمت
نیدرلینڈز کے وزیر اعظم ڈک سخوف نے ایکس پر یہ کہتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی، ''ایمسٹرڈم سے آنے والی خبروں کو خوف کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اسرائیلیوں پر سامیت دشمن حملے مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔‘‘ اس ڈچ رہنما نے کہا کہ وہ نیتن یاہو کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور انہوں نے زور دیا ہے کہ ذمہ دار افراد کا سراغ لگایا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ہم اس واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
مکابی تل ابیب کے تقریباً 3,000 شائقین اپنے فٹ بال کلب کا یورپی لیگ کا میچ دیکھنے کے لیے نیدرلینڈز کے کلب ایجیکس کے اسٹیڈیم میں جمع ہوئے تھے۔ اس کے آغاز سے قبل ہی ممکنہ جھڑپوں کی خبریں سوشل میڈیا اور اسرائیل میں ملکی میڈیا دونوں پر گردش کر رہی تھیں۔ ڈچ اخبار ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ میں تو یہاں تک کہا گیا تھا کہ خطرے کو دیکھتے ہوئے موساد کے ایجنٹ بھی مکابی تل ابیب کے شائقین کے ساتھ نیدرلینڈز آئیں گے۔
کشیدگی کے زیادہ ہونے کا خدشہ اس لیے بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ترک فٹ بال کلب فینرباچے کی ٹیم ایمسٹرڈم سے صرف 40 کلومیٹر (25 میل) کے فاصلے پر اے زیڈ الکمار میں کھیل رہی تھی، جہاں ترک شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی، جو فلسطینی کاز کی حمایت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
مکابی تل ابیب سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافی راز امیر نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے وہاں موجود کلب فینز کی جو شہادتیں سنیں، ان کے مطابق یہ حملہ ''پہلے سے مربوط‘‘ تھا۔
امیر کے مطابق حملہ آوروں کے پاس ''اس بارے میں قطعی معلومات تھیں کہ مکابی کے حامیوں کا کہاں انتظار کرنا ہے اور ایک بار جب انہوں نے اسرائیلی شائقین کو پہچان لیا، تو وہ چاقوؤں اور ڈنڈوں سے ان پر کود پڑے۔‘‘ کھیل ختم ہونے کے بعد ہونے والے حملوں کی ویڈیوز میں سے ایک میں دکھایا جا سکتا تھا کہ کس طرح ایک اسرائیلی کو سیاہ پوش نوجوانوں کے ایک گروپ نے مارا پیٹا اور گھیر لیا۔
میچ سے قبل فلسطین کے حامی مظاہرین اور ڈچ پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جنہوں نے میچ سے قبل شہر کے کئی حصوں میں ''کشیدگی‘‘ کی اطلاع دی تھی۔ یہ میچ ایجیکس نے صفر کے مقابلے میں پانچ گول سے جیت لیا تھا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پہلے کی اپنی ایک پوسٹ میں ڈچ پولیس نے کہا تھا کہ اسٹیڈیم کے باہر سے ایک فلسطینی جھنڈا ''فی الحال نامعلوم افراد‘‘ نے اتار لیا ہے۔ پولیس نے بعد میں کہا کہ ڈیم اسکوائر پر مکابی کے کئی سو شائقین جمع ہیں، جہاں ماحول کشیدہ ہونے کی اطلاع تھی لیکن پھر صورتحال پرسکون ہو گئی تھی۔
اسرائیلی فٹ بال کلب کے دورے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی فلسطینیوں کی حمایت میں ریلی ابتدائی طور پر اسٹیڈیم کے قریب ہونے والی تھی، لیکن شہری انتظامیہ نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسے ایک متبادل جگہ منتقل کر دیا تھا۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب مظاہرین کے ایک گروپ نے اسٹیڈیم میں جانے کی کوشش کی لیکن بدامنی سے نمٹنے کے لیے تعینات پولیس نے انہیں روک دیا۔
پولیس نے بتایا کہ 57 افراد کو گرفتار کیا گیا اور بدامنی کی وجہ سے شہر میں پولیس اب بھی دکھائی دے رہی ہے۔ مکابی کے پرستاروں کو اپنے ہوٹل کمروں میں ہی رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
مکابی تل ابیب فٹ بال کلب نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ اس کی ٹیم اسرائیلی وزارت خارجہ اور وزارت ثقافت اور کھیل کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے اور ''ایمسٹرڈم میں موجود شائقین کی واپسی کو مربوط بنانے میں مدد کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘‘
اس اسرائیلی فٹ بال کلب نے اپنے حامیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوٹلوں میں اپنے کمروں میں ہی رہیں اور یہ کہ وہ اسرائیلی یا یہودی علامتوں کی نمائش سے گریز کریں۔
ش ر⁄ م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)