نیدرلینڈز میں چار ہزار سال پرانا مذہبی مقام، مقبرہ دریافت
22 جون 2023
یورپی ملک نیدرلینڈز میں ماہرین آثار قدیمہ نے چار ہزار سال پرانا ایک مذہبی مقام اور ایک ٹیلے پر بنا ہوا ایسا اجتماعی مقبرہ دریافت کیا ہے، جس میں سے ساٹھ کے قریب مردوں، عورتوں اور بچوں کی قدیم جسمانی باقیات بھی ملی ہیں۔
تصویر: MUNICIPALITY OF TIEL/REUTERS
اشتہار
آرکیالوجی کے ڈچ ماہرین کے مطابق مذہبی اہمیت کی ہزاروں برس پرانی یہ جگہ کئی چوکور گڑھوں اور چند ایسے ٹیلوں پر مشتمل ہے، جنہیں ماضی میں مذہبی رسومات کے علاوہ مردوں کی تدفین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
اس تاریخی مقام کی دریافت نیدرلینڈز میں ٹِیل (Tiel) نامی ایک ایسی جگہ پر ہوئی، جو شہر دی ہیگ سے 72 کلومیٹر یا 45 میل دور واقع ہے۔ ٹِیل نامی قصبے کی بلدیاتی انتظامیہ نے اس دریافت کے بعد اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ نیدرلینڈز میں اپنی نوعیت کی آج تک کی اولین مصدقہ دریافت یے۔
بعد ازاں ٹِیل کی مقامی انتظامیہ نے فیس بک پر اپنے پیج پر یہ بھی لکھا، ''آثار قدیمہ کے شعبے میں یہ ایک شاندار دریافت ہے۔‘‘
یہ دریافت ودطی نیدرلینڈز کے قصبے ٹَیل میں کی گئیتصویر: MUNICIPALITY OF TIEL/REUTERS
'نیدرلینڈز کا سٹون ہَینج‘
ڈچ میڈیا نے اس سائٹ کی دریافت کے بعد اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے 'نیدرلینڈز کا سٹون ہَینج‘ قرار دیا ہے۔
اشتہار
ماہرین کی رائے میں ٹِیل میں یہ سائٹ مذہبی اہمیت کا حامل ایک قدیمی مقام ہے، جو انگلینڈ میں دریافت شدہ اور بڑے بڑے پتھروں کو کھڑا کر کے بنائے گئے اس دائرے جیسا ہے، جو اب دنیا بھر میں مشہور ہے اور سٹون ہَینج (Stonehenge) کہلاتا ہے۔
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک انتہائی قدیم مسجد کی باقیات دریافت کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت اس خطے کی مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقلی پر روشنی ڈالتی ہے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
ایک تاریخی دریافت
اس مسجد کی باقیات اسرائیل کے رحط نامی شہر سے ملی ہیں۔ رحط عربی خانہ بدوشوں کا شہر ہے، جنہیں بدو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ باقیات اس شہر میں ایک نئے محلے کی تعمیر کے دوران ملی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ باقیات 12 سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
مسجد کا ثبوت
ان تاریخی باقیات میں مربع شکل کا ایک کمرہ اور مکہ کی سمت کھڑی ایک دیوار بھی شامل ہیں۔ اس دیوار میں ایک نصف کرّے کا نشان بھی ہے، جو جنوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان منفرد نشانات و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ایک مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ماہرہن کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس وقت اس جگہ پر چند درجن افراد ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
امراء کا علاقہ
مسجد سے کچھ دور ایک ’پرتعش اسٹیٹ بلڈنگ‘ کی باقیات بھی ملی ہیں، جن میں میز اور شیشے کے برتن بھی شامل ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں امیر لوگ رہتے تھے۔ تین سال قبل اسی علاقے سے ایک اور مسجد کی باقیات بھی ملی تھیں۔ وہ مسجد بھی ساتویں سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں ’مساجد کا شمار دنیا کی قدیم ترین مساجد‘ میں ہوتا ہے۔
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ادوار میں تبدیلی کے گواہ
محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مساجد، املاک اور قریبی مکانات کی باقیات اس تاریخی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہیں، جو شمالی نجف کے علاقے میں ایک نئے مذہب کے طور پر اسلام کے متعارف کرائے جانے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اس محکمے کے مطابق، ’’ نئے مذہب اور نئی بادشاہت کے ساتھ اس خطے میں بتدریج ایک نئی ثقافت قائم ہوئی، جس نے یہاں سینکڑوں برسوں سے قائم سابقہ بازنطینی حکومت اور مسیحیت کی جگہ لے لی۔‘‘
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی
اس خطے میں مسلمانوں کو ساتویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بہت سی فتوحات ملی تھیں۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کو یا تو تاریخی یادگاروں یا پھر فعال مساجد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس تصویر میں اسی جگہ کام کرنے والے مسلمان فلسطینی کارکن نماز ادا کر رہے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس جگہ کو ہزاروں برس قبل خاص طور پر اس پہلو سے تعمیر کیا گیا تھا کہ اسے سال بھر کے دوران سورج کو آنے والے سب سے زیادہ اور سب سے کم زوال کے ساتھ مربوط بنایا اور سمجھا جا سکے۔
سورج کو ہر سال آنے والے سب سے زیادہ اور سب سے کم زوال کو سادہ لفظوں میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انہی کے باعث ہر سال اکیس جون کو سال کا طویل ترین دن اور اکیس دمسبر کو سال کی طویل ترین رات وجو د یں آتے ہیں۔
ٹِیل میں دستیاب شواہد کی مدد سے ماہرین کی طرف سے تیار کردہ ایک تصویر کہ ماضی میں یہ جگہ ایسی رہی ہو گیتصویر: MUNICIPALITY OF TIEL/REUTERS
ٹِیل میں نئی دریافت کی خاص بات
ماہرین آثار قدیمہ کو ڈچ قصبے ٹِیل میں جو سائٹ ملی ہے، اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا ایک حصہ ایک ایسا ٹیلہ بھی ہے، جس کے نیچے سے ماہرین کو تقریباﹰ 60 مردوں، عورتوں اور بچوں کی بہت پرانی جسمانی باقیات بھی ملی ہیں۔
اس بات اور دیگر شواہد کی روشنی میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ جگہ ماضی میں قربانی کے لیے منعقد کیے جانے والے اجتماعات، مذہبی رسومات، خوشی کی تقریبات اور مردوں کی تدفین کے لیے بھی تقریباﹰ 800 سال تک استعمال ہوتی رہی تھی۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کھدائی کے دوران ماہرین کو اس قدیمی مقام کا علم تو 2017ء میں ہی ہو گیا تھا مگر اس کی غیر معمولی اہمیت اور انفرادیت کی تصدیق اب ہوئی ہے۔
برطانیہ میں طویل عرصہ قبل دریافت ہونے والی سٹون ہینج نامی قدیمی باقیاتتصویر: Ben Birchall/empics/picture alliance
ایک ملین اشیاء کی دریافت
ٹِیل کی مقامی انتظامیہ کے مطابق، ''یہاں دریافت ہونے والی ہر شے زیر زمین اور گہرائی میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پوشیدہ ہی رہی تھی۔‘‘
ماہرین اب تک کھدائی کے دوران وہاں سے تاریخی باقیات اور قدیمی نمونوں کے طور پر تقریباﹰ ایک ملین تک اشیاء نکال چکے ہیں۔ ان میں شیشے کی گولیوں جیسے دانوں والی ایک تسبیح نما چیز بھی شامل ہے۔
یہ جگہ کم از کم بھی تقریباﹰ چار ہزار سال پرانی ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا گیا کہ اس سائٹ سے ملنے والی اشیاء اور قدیمی نمونوں میں سے کچھ کے بارے میں اندازہ یہ ہے کہ وہ ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح کے زمانے کے ہیں۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
ازمنہ فراعین کے حنوط شدہ لاشوں والے درجنوں تابوتوں کی دریافت
مصر میں ماہرین آثار قدیمہ کو فراعین کے دور کے ایسے درجنوں تابوت ملے ہیں، جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جنوبی مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے یہ تیس تابوت الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
آثار قدیمہ کا بیش قیمت خزانہ
ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تیس تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ انسانی لاشیں اب تک تقریباﹰ اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ ماہرین ان قدیمی نوادرات کی دریافت کو جدید آرکیالوجی کے لیے انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
تین ہزار سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی، تو وہاں قریب ہی ایک قطار کی صورت میں انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔ قدیم انسانی تہذیب کی شاہد یہ باقیات تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
اگلے سال سے نمائش کے لیے میوزیم میں
یہ نوادرات جنوبی مصر میں آثار قدیمہ کے خزانوں کا عظیم مدفن سمجھے جانے والے علاقے الاقصر میں العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان سے ملے، جہاں سے پہلے بھی بہت سے نوادرات مل چکے ہیں۔ قاہرہ حکومت کے مطابق ان نودریافت شدہ نوادرات کو 2020ء میں دوبارہ کھولے جانے والے اور زیادہ بڑے بنا دیے گئے ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
تاریخی اسرار کو سمجھنے کی کوشش
مصر میں 1898ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ازمنہ قدیم کے اور حنوط شدہ لاشوں والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ لکڑی کے یہ تابوت ایسے تیار کیے گئے تھے کہ ان کے اندر اور باہر رنگا رنگ نقش و نگار بھی بنے ہیں اور ان پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
بچوں، کاہن مردوں اور عورتوں کے تابوت
ہزاروں سال قبل یہ تابوت تب انتقال کر جانے والے بچوں اور سماجی طور پر مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ سب تابوت ایک سائز کے نہیں ہیں۔ ان تابوتوں میں محفوظ حنوط شدہ انسانی لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
گرینڈ ایجِپشن میوزیم
ان درجنوں نئے نوادرات کو جلد ہی گیزا کے اہرام کے قریب ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ آج کل اس عجائب گھر کو شائقین کے لیے کھولنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مصر میں دریائے نیل کے کنارے ’بادشاہوں کی وادی‘ کہلانے والے علاقے میں ان تابوتوں کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہیں کھدائی کر کے زمین سے نکالنے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔