سائنس دانوں نے پہلی مرتبہ موجودہ انسانی نسل (ہوموسیپیئن) سے قبل یورپ میں بسنے والے نیندرتھال مخلوق کے دماغ کا ایک سہہ جہتی ماڈل تیار کر لیا ہے، اس طرح انسان دماغ کے ارتقا کو بہتر انداز سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اشتہار
جمعرات کے روز جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں نے ہزاروں برس قبل مٹ جانے والے نیندرتھال کے دماغ کا ایک ایسا سہہ جہتی ماڈل تیار کر لیا ہے، جو اس انسان نما مخلوق کی ملنے والی کھوپڑیوں میں فٹ بیٹھتا ہے۔ یہ انسان نما مخلوق ہزاروں برس قبل صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھی۔
پانی، فطرت کا ایک قیمتی اثاثہ
اگر کھانا پکانا ہے تو پانی چاہیے، کاشتکاری کے لیے بھی پانی درکار ہوتا ہے اور انسانی جسم کے لیے بھی ’آب‘ ہی حیات ہے۔ پانی کی حقیقی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ آج پانی کا عالمی دن منا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
پانی کے محدود وسائل
اگرچہ زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کا صرف تین فیصد حصہ پینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسر جانب پینے کے پانی کی قلت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں دو ارب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانی کی قلت
دو ارب لوگ صاف پانی کی عدم ترسیل کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان اعداد و شمار میں واضح اضافہ متوقع ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق سن 2050 تک تین ارب لوگ قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں مقیم ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/J. Sullivan
’فطرت برائے آب‘
پینے کے پانی کی قلت کے مسئلے کی نشاندہی کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ پچیس برسوں سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہر سال 22 مارچ کو ایک نئے عنوان کے ساتھ پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو اس برس ’فطرت برائے آب‘ رکھا گیا ہے۔ جس کا مقصد اِس بات پر توجہ مرکوز کرانا ہے کہ فطرت کے پاس خشک سالی، سیلاب اور آلودگی جیسے مسائل کا حل موجود ہے۔
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS/Sokhin
گدلا پانی، ایک متبادل ذریعہ
پانی کا ضائع ہونا بھی اس کی قلت کی ایک اہم وجہ ہے۔ تاہم اب استعمال شدہ یا گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے اور صرف چند ممالک اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Maina
وسائل کا ضیاع
اسرائیل میں نوے فیصد گدلے پانی کو زرعی آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم زیادہ تر ممالک ان وسائل کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں، اسی فیصد استعمال شدہ پانی سے آلودگی پھیلتی ہے کیونکہ ابھی تک گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال نہیں کیا جاتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Bothma
پینے کا صاف پانی میسر نہیں
گدلے پانی کو موثر طریقے سے قابلِ استعمال بنانے کا عمل قحط سالی کے مسئلے کا حل بن سکتا ہے۔ نمیبیا اور سنگاپور میں گندے پانی کو شفاف بنانے کے بعد پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں اس حوالے سے ابھی تک تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ اکثر لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ وہ ’ریفانئنڈ ویسٹ واٹر‘ پینے سے بیمار ہو جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
گندے پانی کا مسئلہ
عموماﹰ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بوتلوں میں ملنے والا ’منرل واٹر‘ زیادہ صحت بخش ہوتا ہے۔ تاہم کئی تازہ جائزوں نے ثابت کیا ہے کہ منرل واٹر کی بوتلوں میں بھی آلودہ پانی شامل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی معروف کمپنیوں کی تیار کردہ منرل واٹر کی بوتلوں میں پلاسٹک کے ایسے چھوٹے زرے پائے گئے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اس سے قبل محققین کا خیال تھا کہ نیندرتھال کا دماغ اپنے سے قبل کی اُن جیسی مخلوق سے بڑا تھا، تاہم ان کے دماغ کا ریڑھ کی ہڈی سے جڑنے والا حصہ انسانوں سے چھوٹا تھا۔ یہی حصہ کسی جانور کی حرکات و سکنات اور توازن کو قابو میں رکھتا ہے۔ اسی حصے میں سیکھنے اور بولنے کی خصوصیات بھی ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق ممکنہ طور پر انسانوں اور نیندرتھال کے دماغوں کے درمیان یہی فرق ان کے سوچنے سمجنے کی صلاحیتوں اور سماجی رابطوں میں فرق کا موجب ہوا ہو گا۔ محققین کے خیال ہے کہ اس تیار کردہ سہ جہتی نمونے سے نیندرتھال کے فنا ہو جانے اور انسان کے باقی رہ جانے کی وجوہات کا علم بھی ہو سکے گا۔
یہ بات اہم ہے کہ سائنسدانوں کے نزدیک یہ سوال خاصی دلچسپی کا باعث ہے کہ یورپ میں بسنے والے نیندرتھال کیوں مٹ گئے، جب کہ افریقہ سے یورپ میں آنا والا انسان ایک نئے موسمیاتی ماحول کے باوجود زندہ رہنے میں کامیاب رہا۔
سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں جاپان کی کائیو یونیورسٹی سے وابسہ نامیچی اگیہارا کے مطابق، ’’انسانوں اور نیندرتھال کے درمیان یہ فرق ممکن ہے کہ بہت معمولی ہو، مگر نیچرل سلیکشن کے معنوں اور اثرات میں نہایت بڑا اور کلیدی ہو سکتا ہے۔‘‘
انسانی دماغ کے لیے خطرناک ترین کھیل
کھیل دراصل صحت کے لیے ایک فائدہ مند مصروفیت ہے۔ لیکن کئی برسوں تک مسلسل اور ضرورت سے زیادہ دباؤ والے کھیل نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر دماغ کے لیے۔
تصویر: picture alliance/dpa Marcus Brandt
ریسلنگ
ریسلنگ صرف ایک شو ہی نہیں بلکہ اس کھیل میں مسلسل چوٹوں کی وجہ سے متعدد پہلوانوں کے دماغوں کو واقعی نقصان پہنچا ہے۔ کینیڈین پہلوان کرس بینواٹ نے چالیس برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق چالیس برس کی عمر میں ہی ان کا دماغ الزائمر کے پچاسی سالہ مریض کی طرح کا ہو چکا تھا۔
زیادہ دباؤ والے کھیل کھیلنے سے دماغ کو نقصان پہنچانے والی بیماری کو ڈاکٹر ’باکسر سنڈروم‘ کہتے ہیں۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ سر کو مستقل جھٹکے دینے سے دماغ متاثر ہوتا ہے۔ نتیجتاﹰ انسان کی یادداشت کمزور، بولنے میں مشکل، خودکشی کے خیالات اور آخرکار ڈیمنشیا جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بیماری ایک باکسر میں پائی گئی تھی، اسی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa Marcus Brandt
امریکی فٹبال
’باکسر سنڈروم‘ بیماری صرف باکسرز ہی کو نہیں ہوتی، خاص طور پر ’امریکی فٹ بال‘ کے کھلاڑیوں میں بھی یہ بیماری اکثر پائی جاتی ہے۔ تحقیقی جریدے ’سائنس‘ کے مطابق نیشنل فٹبال لیگ کے کھلاڑیوں کے دماغ کو ایک سیزن کے دوران 600 سے زائد جھٹکے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھلاڑیوں کے ہیلمٹ بھی دماغ کو مثاثر ہونے سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Drago Prvulovic
ہیلمٹ مکمل حفاظت نہیں کرتے
نیشنل فٹ بال لیگ پہلے تو کئی برسوں تک اس بات کی تردید کرتی رہی کہ کھلاڑی باکسر سنڈروم سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اب آ کر چند قوانین تبدیل کیے گئے ہیں تاکہ دماغ کو کم سے کم جھٹکے لگیں۔ اس وقت سائنسدان ایسے مقناطیسی ہیلمٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں، جو جھٹکے کی طاقت کو کمزور کرنے میں مدد دیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
آئس ہاکی
اگر آپ اپنے دماغ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ آئس ہاکی کھیلنے سے بھی پرہیز کریں۔ آئس ہاکی کے متعدد کھلاڑیوں میں بھی باکسر سنڈروم کی بیماری پائی گئی ہے۔ تصادم جان بوجھ کر ہو یا حادثے کے طور پر، حقیقت یہ ہے کہ مسلسل جھٹکوں سے دماغ میں خطرناک قسم کی پروٹینز کی تعداد اور مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/The Canadian Press/Jason Franson
فٹ بال
یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ کئی فٹبال کھلاڑی بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ مسلسل ہیڈ اسٹروک ہیں۔ فٹبال میں سر کو لگنے والے جھٹکے اتنے زیادہ خطرناک نہیں ہیں، جتنے کہ امریکی فٹبال یا پھر آئس ہاکی میں لگنے والے جھٹکے۔ لیکن بظاہر بےضرر نظر آنے والے جھٹکے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Ina Fassbender
6 تصاویر1 | 6
اس تحقیق میں فیزیکل انتھراپولوجی، میکینیکل انجینیئرنگ اور نیوروسائنس کے شعبوں کے سائنس دان مل کر کام کر رہے ہیں اور دماغ کا یہ سہہ جہتی ماڈل بھی ان سائنس دانوں کی مشترکہ کاوش ہے۔ ان سائنس دانوں نے نیندرتھال کی کھوپڑی کی کیویٹیز اور مجموعی خالی جگہ کی بنیاد پر یہ نمونہ تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ نیندرتھال سے قبل کے چار ایسی ہی مخلوقوں کے دماغوں کے نمونے کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔