نیوزی لینڈ ان ممالک میں شامل ہونے جا رہا ہے، جہاں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر مکمل پابندی عائد ہے یا جہاں رفتہ رفتہ پلاسٹک بیگز کا استعمال ترک کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
نیوزی لینڈ میں اگلے برس جولائی تک پلاسٹک کے ایک ہی بار استعمال ہونے والے تھیلوں پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ جمعہ دس اگست کے روز نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ہم پلاسٹک کے تھیلوں یا تھیلیوں کے استعمال کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کا سفر شروع کر رہے ہیں، تاکہ ایک صاف، سرسبز اور مزید بہتر تشخص کے حامل نیوزی لینڈ کا قیام عمل میں لیا جا سکے، جہاں کا ماحول بہتر ہو۔‘‘
نیوزی لینڈ کی حکومت کے منصوبے کے مطابق اگلے برس جولائی تک ملک بھر میں ایسے پلاسٹک بیگز کے استعمال، جنہیں ایک مرتبہ استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے، پر پابندی عائد ہو جائے گی۔
اس وقت دنیا میں قریب ایک سو ایسے علاقے ہیں، جہاں رفتہ رفتہ پلاسٹ بیگز کا استعمال ترک کیا جا رہا ہے۔ ان میں آسٹریلیا کی چھ ریاستوں اور خطوں کے علاوہ بیلجیم، فرانس، اٹلی اور چین اپنے ہاں پہلے پلاسٹک بیگز کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور ان بیگز پر اضافی ٹیکس عائد ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا، ’’نیوزی لینڈ میں ہر سال لاکھوں پلاسٹک بیگز استعمال کیے جاتے ہیں، جو تھیلوں کا ایک پہاڑ بنتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر آخر میں ہمارے ماحول کی آلودگی اور ہمارے قیمتی ساحلوں اور سمندری حیات کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اور ایسا ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب ہمارے پاس ان تھیلوں کا متبادل بھی موجود ہے۔‘‘
پلاسٹک کی ماحولیاتی آلودگی کا بھیانک چہرہ
خوبصورت سمندری ساحل اب پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلوں کے ساتھ ساتھ اِن سے مرے پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ساحل دوسرے کچرے سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک سے انسانی محبت کی قیمت بھی اب انسانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
پلاسٹک کی عمر
پلاسٹک ایک ہلکا پھلکا اور تادیر رہنے والا مادہ ہے۔ سن 1950 میں ابتدائی پروڈکشن کے بعد سے اسے آٹھ بلین میٹرک ٹن سے زائد یہ پیدا کیا جا چکا ہے۔ یہ مسلسل ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مادی انحطاط ممکن نہیں اور اس کے نابود نہ ہونے نے انسانی زندگی میں انتہائی زیادہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے ری سائیکل کے لیے پلاسٹک ضرور اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن بہت سارا سمندر تک پھر بھی پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
پلاسٹک کے دریا
دنیا بھر میں نوے فیصد پلاسٹک کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک دریا پہنچاتے ہیں۔ ان میں دنیا کے دس بڑے دریا شامل ہیں۔ ان کے نام ہیں، یانگژی، زرد، سندھ، ہائی، نیل، گنگا، پرل، آمو، نائیجر اور میکانگ۔ یہ دریا انتہائی گنجان شہروں کے قریب سے گزرتے ہیں اور اپنے ساتھ کچرا بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/G. B. Dantes
پرندوں نے بھی پلاسٹک کا استعمال شروع کر دیا
کئی پرندوں کے لیے دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں میں پائے جانے والے کاٹھ کباڑ میں پلاسٹک کو اپنے لیے مفید بھی جانا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہاگن جھیل میں یہ پرندہ پلاسٹک کو اپنے گھونسلے میں استعمال کیے ہوئے ہے۔ ریسرچر کے مطابق انسانوں کی طرح پرندوں کے لیے بھی پلاسٹک انتہائی غیرمفید ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ritzau Scanpix
پلاسٹک استعمال کرنے کے خطرناک نتائج
پلاسٹک کے مکمل طور پر نابود ہونے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی موجودگی ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد پلاسٹک کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو انجام کار ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے سمندری حیات و نباتات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Balance
پلاسٹک خوراک کا حصہ بن چکا ہے
جانور پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ، روس، آئس لینڈ اور دیگر ممالک کے کئی جزائر پر چونتیس فیصد سمندری حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر چوہتر فیصد پلاسٹک قابل ہضم نہیں ہوتا۔ اس سے انسانی بدن میں بھی جانے سے اندرونی اجزاء کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پلاسٹک نے انسانوں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی عظیم الجثہ مخلوق کو بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تھائی نہر میں ایک ایسی وہیل مچھلی پائی گئی تھی، جس کو سانس لینے میں شدید دشواری تھی کیونکہ اُس کے گلے میں پلاسٹک کا بیگ پھنسا ہوا تھا۔ علاج کے دوران وہیل کے اندر سے پانچ پلاسٹک کے تھیلے نکلے تھے۔ یہ وہیل بعد میں جانبر نہیں ہو سکی تھی۔ اس وہیل کا معدہ اسی فیصد پلاسٹک کچرے سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر: Reuters
پلاسٹک کی دیکھی اور ان دیکھی صورتیں
انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں بعض ہمارے سامنے ہیں اور بعض مختلف اشیا میں ملفوف ہوتی ہیں۔ سمندر میں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات تیرتے پھرتے ہیں اور یہ بھی سمندری حیات کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ذرات نے مچھلیوں اور سمندری پرندوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NOAA Pacific Islands Fisheries Science Center
پلاسٹک سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی
انسانوں کو پلاسٹک کے استعمال سے کیونکر نجات مل سکتی ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کی طویل ری سائیکلنگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک پر پابندی کا امکان ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
8 تصاویر1 | 8
نیوزی لینڈ کی حکومت نے ان بیگز کے استعمال پر مکمل پابندی کے لیے ایک ’فیز آؤٹ‘ منصوبہ ترتیب دیا ہے، جو چھ ماہ کا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ اپنی شادابی کے باعث جانا جانے والا نیوزی لینڈ ترقی یافتہ اقوام میں فی کس سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
صنعتی اعداد و شمار کے مطابق نیوزی لینڈ میں سالانہ بنیادوں پر ملک کا ہر شہری پلاسٹک کی قریب ڈیڑھ سو تھیلیاں استعمال کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں سالانہ بنیادوں پر مجموعی طور پر ساڑھے سو ملین تھیلیاں استعمال ہو رہی ہیں۔