نیوزی لینڈ میں کورونا کے باعث عائد تقریباﹰ سب پابندیاں ختم
12 ستمبر 2022
نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث عائد تقریباﹰ تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اب نیوزی لینڈ جانے والوں کے لیے کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن کے ثبوت فراہم کرنا بھی لازمی نہیں ہو گا۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے حوالے سے نیوزی لینڈ کی اس نئی حکومتی پالیسی کا اعلان پیر بارہ ستمبر کے روز ملکی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب پورے ملک میں صحت کے شعبے اور بزرگ شہریوں کی رہائش گاہوں کے علاوہ ہر جگہ پر چہروں پر حفاظتی ماسک پہننے کی پابندی بھی ختم کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ویلنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کووڈ انیس کے خلاف حفاظتی انتظامات کے حوالے سے اپنی پالیسی کا موجودہ صفحہ پلٹ دیں۔ اب ہمیں ان غیر معمولی اقدامات کی کوئی ضرورت نہیں، جو ماضی میں ہم سب کے لیے لازمی تھے۔‘‘
تقریباﹰ دو سال تک ملکی سرحدوں کی بندش
نیوزی لینڈ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے کورونا وائرس کے خلاف سخت حفاظتی اقدامات کے تحت اپنی قومی سرحدیں مارچ 2020ء میں سربمہر کر دی تھیں۔ یہ سرحدیں اسی سال جولائی میں دوبارہ پوری طرح کھولی گئی تھیں۔
وزیر اعظم آرڈرن کے مطابق اب نیوزی لینڈ کا سیاحتی سفر کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے یہ لازمی نہیں ہو گا کہ وہ اس ملک میں داخلے کے بعد اپنا پہلا کورونا ٹیسٹ فوراﹰ اور دوسرا پانچ روز بعد کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاح رضاکارانہ طور پر ایسا کرنا چاہیے، تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
اشتہار
وبا کے خلاف ردعمل میں سنگ میل
وزیر اعظم آرڈرن نے صحافیوں کو بتایا، ''کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے خلاف اقدامات اور وبائی مرض سے متعلق ہمارے ردعمل میں آج کا دن ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس احساس کے عین برعکس کہ کورونا وائرس ہی ہمیں یہ بتائے گا کہ ہمیں اپنی زندگیاں کیسے گزارنا ہیں اور ہمارا حال اور مستقبل کیسے ہوں گے، آج ہم نے اپنی زندگیاں اور ان کا کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں۔‘‘
نیوزی لینڈ کی حکومت کی کورونا وائرس سے متعلق حکمت عملی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ملک اس عالمگیر وبا کے دوران زیادہ عرصے تک 'زیرو کووڈ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تھا۔ اس دوران پہلی بار مارچ 2020ء میں اس وائرس کے باعث اور پھر اگست 2021ء میں اسی وائرس کے ڈیلٹا اور اومیکرون ویریئنٹس وہاں پہنچنے کے بعد طویل عرصے تک ملک گیر لاک ڈاؤن بھی نافذ رہے تھے۔
نیوزی لینڈ کی مساجد پر دہشت گردانہ حملے
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے میں انچاس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/SNPA/M. Hunter
برینٹن ٹیرنٹ پر فرد جرم عائد
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ کر کے انچاس افراد کو ہلاک کرنے والے ملزم برینٹن ٹیرنٹ کو ہفتہ سولہ مارچ کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اپنی پہلی پیشی کے وقت ملزم برینٹ قیدیوں کے سفید لباس میں ملبوس تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران خاموش کھڑا رہا۔ اُس پر قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Mitchell
برینٹن ٹیرنٹ
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والا اٹھائیس برس کا مبینہ ملزم برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ آسٹریلوی شہری ہے۔ اُس کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائنسنس بھی موجود ہے۔ اس کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے تناظر میں کہا گیا کہ وہ سفید فام نسل کی برتری کے تفاخر میں مبتلا ہے۔ اُس کو مسجد النور پر حملے کے چھتیس منٹ بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/P. Kane
مسجد النور میں اکتالیس ہلاکتیں
کرائسٹ چرچ کی مسجد النور پر ملزم نے داخل ہو نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس مسجد میں اکتالیس افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں مقامی نو مسلم شہریوں کے علاوہ کئی مسلمان ملکوں بشمول پاکستانی تارکین وطن بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/SNPA/M. Hunter
مساجد پر حملے کے بعد سکیورٹی میں اضافہ
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی پولیس نے سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ملک بھر میں عمومی طور پر اور کرائسٹ چرچ میں خاص طور پر عام لوگوں کو مساجد کے قریب پہنچنے سے روک دیا گیا۔
تصویر: Reuters
کرائسٹ چرچ کی حملے کی نشانہ بننے والی مساجد
کرائسٹ چرچ کا شہر نیوزی لینڈ کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے۔ دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بننے والی مسجد النور شہر میں واقع ہے جب کہ دوسری مسجد نواحی بستی لِن ووڈ میں واقع ہے۔ مبینہ حملہ آور مسجد النور پر حملے کے سات منٹ بعد لِن وُوڈ کی مسجد پہنچا تھا۔
نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں کی مساجد کے باہر پولیس کی تعیناتی
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کو سفید فام نسل کی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے دارالحکومت ولنگٹن، آک لینڈ، ڈونیڈن اور دوسرے شہروں کے باہر پولیس تعینات کر دی ہے۔ نیوزی لینڈ کی تقریباً ہر مسجد کے باہر پولیس چوکس ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Walter
نیوزی لینڈ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے جمعہ پندرہ مارچ کے دہشت گردانہ حملے اور ہونے والی ہلاکتوں کے تناظر میں اس دن کو اپنے ملک کا ایک سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں گن کنٹرول کے قوانین میں رد و بدل کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مقتولین کی یاد میں پھول رکھنے کا سلسلہ
کرائسٹ چرچ شہر کے شہریوں نے انچاس ہلاکتوں پر شدید رنج و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ لوگ جوق در جوق باہر نکل کر دونوں مساجد کے باہر پھول رکھنے کے علاوہ شمعیں بھی روشن کرتے دیکھے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AA/P. Adones
کرائسٹ چرچ کے مقتول نمازیوں کی غائبانہ نماز جنازہ
نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کی دو مساجد پر جمعے کی نماز کے وقت کیے گئے حملے میں ہلاک ہونے والے نمازیوں کے لیے مسلم دنیا کے کئی شہروں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس تصویر میں بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطینی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Abu Rmeleh
9 تصاویر1 | 9
اطلاق نصف شب سے
نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس سے متعلق اس نئی قومی پالیسی کا اطلاق پیر بارہ ستمبر کی رات مقامی وقت کے مطابق گیارہ بج کر انسٹھ منٹ سے ہو جائے گا۔ اس کے بعد صرف ایسے افراد کو ہی سات روز تک قرنطینہ میں رہنا ہو گا، جن کے تب تک کیے گئے کورونا ٹیسٹوں کے نتائج مثبت آئے ہوں۔
اس کے علاوہ اگر کسی گھرانے میں کووڈ انیس کا کوئی مریض قرنطینہ میں ہو، تو اس خاندان کے دیگر افراد کے لیے بھی قرنطینہ میں رہنا لازمی نہیں ہو گا بلکہ انہیں صرف احتیاطاﹰ اپنے روزانہ ٹیسٹ کرانا ہوں گے۔
نیوزی لینڈ کی مجموعی آبادی صرف تقریباﹰ پانچ ملین ہے اور وہاں آج تک کورونا وائرس کی 1.7 ملین سے زائد انفیکشنز ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ کووڈ انیس کے سبب اس ملک میں اب تک کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو ہزار بنتی ہے۔