نیوزی لینڈ میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے محکمے نے بتایا ہے کہ ملک کے جنوبی حصے میں واقع ایک دور افتادہ ساحل پر پھنس جانے والی ایک سو پینتالیس پائلٹ وہیل مچھلیاں ہلاک ہو گئی ہیں۔
اشتہار
نیوزی لینڈ کے سٹیوَرٹ جزیرے پر اتنی بڑی تعداد میں پائلٹ وہیل مچھلیوں کی ہلاکت کا علم ایک ہائیکر کو ہفتہ چوبیس نومبر کو ہوا تھا۔ ہائیکر کے مطابق جب وہ وہاں پہنچا تو نصف سے زائد وہیل مچھلیاں پہلے ہی مر چکی تھیں۔
نیوزی لینڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف کنزرویشن یا محمکہ برائے تحفظِ آبی حیات کے مینیجر رین لیپنس کا کہنا تھا کہ محکمے نے باقی ماندہ وہیل مچھلیوں کو سہل موت دینے کا فیصلہ کیا۔
وہیل مچھلیوں کا دور دراز ساحل پر پھنسنا اور آس پاس کے علاقوں میں اس شعبے سے متعلق افراد کا نہ ہونا ان مچھلیوں کو سمندر میں دوبارہ چھوڑنے میں بڑی رکاوٹ تھی۔
متعلقہ محکمے نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان مچھلیوں کے اس ساحل پر پھنسنے کی وجہ کیا تھی تاہم اتنا کہا گیا کہ شدید موسم یا بیماری ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اسی طرح کے ایک الگ واقعے میں چھوٹی جسامت والی دس شکاری وہیل مچھلیاں ملک کے شمالی علاقے میں ایک ساحل پر بھی پھنسی ہوئی پائی گئی تھیں۔ امدادی کارکن ان میں سے دو مچھلیوں کو بچانے میں ناکام رہے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ باقی آٹھ کو منگل کے روز واپس سمندر میں روانہ کر سکیں گے۔
نیوزی لینڈ کے محکمہ تحفظ آب حیات کا کہنا ہے کہ اس برس وہیل مچھلیوں کے ساحلوں پر آ کر پھنس جانے کے 85 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں زیادہ تر مچھلیاں لہروں کے ساتھ گروپ کے بجائے ساحلوں پر الگ الگ پہنچیں تھیں۔ سن 2017 میں اسی طرح ساحلوں پر پھنس کر ہلاک ہونے والی پائلٹ وہیل مچھلیوں کی تعداد تقریبا تین سو تھی۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
ساحل ان کے لیے موت ہے
ابھی گزشتہ ہفتے ہی جرمنی اور ہالینڈ کے شمالی ساحلوں پر بارہ سپرم وہیلز یا مکمل دانتوں والی وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ تاہم اب تحقیقات جاری ہیں تاکہ ان عظیم الجثہ مچھلیوں کی موت کی وجہ معلوم کی جا سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I.Wagner
یہ مچھلیاں کیوں ہلاک ہوئیں؟
یہ بارہ سپرم وہیلز وانگیروگے، ہیلگولانڈ، بریمرہافن اور ٹیکسل کے ساحلوں سے ملی ہیں۔ تاہم یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان کی ہلاکت کی کیا وجہ تھی؟ اس وجہ کا پتہ چلانے کے لیے حکام اب قریب دس دس میٹر لمبی ان لاشوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
بھاری مشینری کا استعمال
ساحلوں پر پڑی وہیل مچھلیوں کے مردہ اجسام کو اٹھانے کے لیے بھاری مشینری استعمال کی گئی۔ اسی طرح کے بڑے بڑے ٹرالروں کے ذریعے انہیں ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ ایک مادہ سپرم وہیل کا وزن پندرہ ٹن جبکہ نر کا ساٹھ ٹن تک ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I.Wagner
دل دُکھتا ہے
سب سے پہلے ان وہیل مچھلیوں کی کھال کو کاٹا گیا اور پھر کھدائی کے لیے استعمال ہونے والی مشین کے ذریعے اسے جسم سے کھینچ کر اتارا گیا۔ اسی طرح ایک مشکل مرحلے سے گزرتے ہوئے دیگر حصوں کو بھی الگ کیا گیا۔ اس عمل کی نگرانی پر مامور ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اتنے خوبصورت جانور کے ساتھ ایسا ہوتا دیکھ کر دل کو دکھ پہنچتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/I.Wagner
’میوزیم‘ آخری آرام گاہ
ان وہیل مچھلیوں کے کچھ حصے جرمنی کی گیسن یورنیورسٹی میں پہنچا دیے گئے ہیں۔ یہ ایک وہیل مچھلی کا جبڑا ہے۔ ماہرین ان اجسمام پر بہت احتیاط سے کام کر رہے ہیں تاکہ بعد ازاں ہڈیوں کو جوڑ کر وہیل کا ڈھانچہ دوبارہ سے تیار کیا جا سکے۔ وہیل کے ڈھانچے اکثر عجائب گھروں کی زینت بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
خوراک کی کمی
اب تک کی تحقیقات سے یہ پتہ چلا ہے کہ ان بارہ میں سے کچھ وہیلز کو خوراک کی کمی کا سامنا تھا۔ ایک ماہر ایلموٹ کووٹز کے مطابق،’’معدہ اور آنتیں بالکل خالی تھیں۔‘‘ سکویڈ یعنی انتہائی بڑا جھینگا (قیر ماہی) سپرم وہیل کی مرغوب ترین غذا ہے، جو شمالی سمندر میں نہیں پائے جاتے۔ ایسے میں یہ بھی ہو سکتا ہو کہ ان وہیل مچھلیوں نے خوراک کی تلاش میں ساحلوں کا رخ کیا ہو۔
تصویر: Reuters
وزن کی وجہ سے پلٹ نہیں سکیں
جرمن شہر ہینوور میں جانوروں کی ایک ڈاکٹر ارزولا زیبرٹ نے بتایا کہ ان میں سے کچھ بظاہر مکمل طور پر صحت یاب دکھائی دیں:’’ان چند وہیلز کے پیٹ بھرے ہوئے تھے‘‘۔ ساحل پر پہنچنے کے بعد شاید یہ وہیل مچھلیاں اپنے وزن کی وجہ سے دوبارہ گہرے پانی میں پہنچ نہ سکیں اور یہ اس دوران پھیپھڑوں اور خون کی نالیوں پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. van Elten
گہرے سمندر کی چیمپئن
سپرم وہیل صرف ایک سو میٹر گہرے بحیرہٴ شمال کے لیے نہیں ہیں۔ یہ مچھلیاں کئی سو میٹر گہرائی میں رہنے اور شکار کرنے کی عادی ہیں۔ بحیرہٴ شمال میں ان وہیل مچھلیوں کو بازگشت کی مدد سے اپنا راستے تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر یہ ایک مرتبہ شمالی سمندر یا وَیڈن سی میں داخل ہو جائیں تو ان کی گہرے پانیوں میں واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Wildlife
بھارت میں پائلٹ وہیلز ہلاک
اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں بھارت میں بھی رونماہوا۔ اس دوران بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ساحلوں پر لمبے پروں والی اسّی پائلٹ وہیلز پہنچیں، جن میں سے چھتیس کو بچا لیا گیا تاہم بقیہ ہلاک ہو گئیں۔ اس سے قبل اسی ساحل پر 1973ء میں 147 وہیل مچھلیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Str
یکجہتی کی مثال
ایک ماہر فابیان رٹر کے مطابق پائلٹ وہیلز میں یکجہتی کا احساس کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ یہ جانور بالکل ایک مثالی خاندان کی طرح مل کر رہتے ہیں:’’اگر گروپ لیڈر بیمار ہو جائے یا کسی اور وجہ سے راستہ بھٹک کر غلط سمت میں ساحل کی جانب تیرنے لگے تو دیگر ساتھی یکجہتی کے طور پر بھی اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
بہت زیادہ شور
تحفظ ماحول کے علمبردار سمندروں میں رواں دواں جہازوں، فوجی مشقوں اور دیگر بحری سرگرمیوں سے خبردار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں سمندری حیات کو بری طرح سے نقصان پہنچا رہی ہیں۔ فابیان رٹر کے مطابق ’’سماعت کے معاملے میں وہیل مچھلیاں انتہائی حساس ہوتی ہیں۔ سمندروں میں شور بڑھتا جا رہا ہے، جس سے وہیل مچھلیاں پریشان ہو رہی ہیں۔ شاید یہ بھی ان کی ساحلوں تک پہنچنے کی ایک وجہ ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/J. Kriswanto
کیا سورج کا بھی قصور ہے؟
2015ء میں دسمبر کے اواخر میں سورج کی سطح پر زمین کی سمت میں تین بڑے طوفان آئے۔ سورج کی سطح پر آنے والے ایسے طوفان زمینی مقناطیسیت میں خلل ڈالتے ہیں جبکہ وہیل مچھلیاں اسی مقناطیسیت کو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ تاہم جب مقناطیسیت کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو پھر ان مچھلیوں کے راستہ بھٹک جانے اور ساحلوں تک پہنچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔