نیوزی لینڈ: کرائسٹ چرچ کا حملہ آور عدالت میں، فرد جرم عائد
16 مارچ 2019نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ کر کے انچاس افراد کو ہلاک کرنے والا مبینہ ملزم برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ کو ہفتہ سولہ مارچ کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اپنی پہلی پیشی کے وقت ملزم برینٹ نیوزی لینڈ میں جیلوں کے قیدیوں کے سفید لباس میں ملبوس تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران خاموش کھڑا رہا۔ اُس پر قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
عدالت نے اُسے ریمانڈ پر تحویل میں رکھنے کا حکم دیتے ہوئے دوبارہ پانچ اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ پولیس کے مطابق اگلی پیشی پر ٹیرنٹ پر مزید الزامات عائد کیے جائیں گے۔ اس ابتدائی عدالتی کارروائی کے بعد یہ مقدمہ کرائسٹ چرچ کے ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا اور یہی عدالت اس ملزم کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ ملزم کو اُس کی کار میں پہلی فائرنگ کے چھتیس منٹ بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے اس حملے کے حوالے سے مزید بتایا کہ برینٹن ٹیرنٹ نے پہلے النور مسجد میں فائرنگ کی اور پھر اس نے سات منٹ بعد کرائسٹ چرچ کے نواحی علاقے لِن وُوڈ کی مسجد پہنچ کر نمازیوں پر فائرنگ کی تھی۔ النور مسجد میں ٹیرنٹ کی بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ سے اکتالیس نمازی مارے گئے تھے۔ باقی ہلاکتیں دوسری مسجد میں ہوئی تھیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے شہری بھی شامل ہیں۔ بعض ہلاک شدگان مقامی نومسلم شہری تھے۔
دیگر تین گرفتار شدگان کے بارے میں پولیس ابھی تک یہ طے نہیں کر سکی کہ آیا وہ بھی ان حملوں میں ملوث تھے۔ ان افراد کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ان کے ممکنہ مجرمانہ ماضی سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اٹھائیس سالہ آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ کو اُس کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کے تناظر میں سفید فام نسلی برتری کے احساس میں مبتلا بتایا گیا ہے۔ اس حملے کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ عالمی لیڈروں نے اس واقعے کو ہولناک اور سفاکانہ قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے ان حملوں کو اپنے ملک کی ’تاریخ کے سیاہ ترین دن‘ سے تعبیر کیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ کرائسٹ چرچ حملے میں استعمال ہونے والی نیم خودکار رائفل آسٹریلیا میں ایک ممنوعہ ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کو سن 1996 میں تسمانیہ کے مقام پورٹ آرتھر میں قتل عام کے بعد ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ اس واقعے میں پینتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔