نیوکلئیرسپلائرز گروپ میں شمولیت، بھارت کے مخالف ممالک کون؟
21 جون 2016جوہری مواد کی پر امن مقاصد کے لیے تجارت کے نگران نیوکلئیر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کے کل اڑتالیس رکن ممالک ہیں۔ بھارت سمیت پاکستان نے بھی اس گروپ میں شمولیت کی درخواست دے رکھی ہے۔ این ایس جی کا غیرمعمولی اجلاس جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں جاری ہے۔ بھارت کی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق جوہری تجارت کرنے والے ممالک کے گروپ میں سے اکثریت اس گروپ میں بھارت کی شمولیت کے حامی ہیں تاہم ترکی، جنوبی افریقہ، آئیرلینڈ اور نیوزی لینڈ این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کے خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ چین یہ بیان دے چکا ہے کہ وہ این ایس جی میں ان ممالک کی شمولیت کے خلاف ہے، جنہوں نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی ) کی توثیق نہیں کی اور بھارت کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ چین کا موقف واضح ہے لیکن بھارت کو کوئی بھی گنجائش ملنے کی صورت میں چین اپنے اہم اتحادی پاکستان، جس نے بھارت کی طرح این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں، کی این ایس جی میں شمولیت کی حمایت کرے گا۔
بھارت فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر این پی ٹی پر دستخط نہ بھی کیے ہوں تو این ایس جی میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ بھارت جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت اور اس کی برآمد کے لیے این ایس جی کا رکن بننا چاہتا ہے۔ جوہری تجارت کرنے والے ممالک کے گروپ میں شامل ہوکر توانائی کی قلت کے شکار ملک بھارت کو عالمی منڈی تک رسائی مل جائے گی۔ بھارت کو اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے سن 2030 تک 63000 میگا واٹ توانائی حاصل کرنے کی توقع ہے۔
اسی طرح پاکستان بھی جوہری توانائی کا حصول چاہتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ مالک میں شامل ہونا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی جوہری تنظیم آئی اے ای اے میں پانچ برس تک پاکستان کے مندوب کی ذمہ داریاں نبھانے والے علی سرور نقوی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا،’’ پاکستان کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی والے ہسپتال چاہیے ہیں، ہمیں زراعت کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی چاہیے، اگر پاکستان این اس جی کا ممبر بن جاتا ہے تو ہم دوسرے ممالک سے توانائی حاصل کر سکیں گے۔‘‘ علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ این ایس جی میں پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے، پاکستان کا این پی ٹی کا دستخط کنندہ نہ ہونے کے علاوہ پاکستان این ایس جی کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اگر این ایس جی بھارت کو چھوٹ دیتا ہے تو پاکستان کا پورا حق بنتا ہے کہ وہ اس کو ممبر بنائے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نیوکلئیر پروگرام بہت ایڈوانس ہے اور جو اس کا پرامن استعمال چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار ماریہ سلطان بھی علی سرور نقوی کی رائے سے متفق نظر آتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان سن 2003 سے این ایس جی کا رکن بننے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ پاکستان 2010 اور 2011 میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے چئیرمین کے طور پر بھی رہا ہے، ’سرن‘ نیوکلئیر ریسرچ سینٹر میں 300 میں سے 37 سیاست دان پاکستانی ہیں، جو عالمی جوہری ریسرچ کے لیے کام کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کے کئی اقدامات ہیں۔‘‘ ماریہ مزید کہتی ہیں کہ پاکستان کا ایکسپورٹ کنٹرول قانون نیوکلئیر سپلائرز گائیڈ لائنز کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے اور پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست بھی ہے۔
این ایس جی جوہری شعبے کے اہم معاملات پر نظر رکھتا ہے اور ان کے رکن ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت کرنے اور اسے درآمد کرنے کی اجازت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان اس گروپ میں شمولیت کے لیے سفارتی محاذ پر کوششیں کر رہے ہیں۔ نیوکلئیر سپلائرز گروپ اتفاق رائے کے تحت کام کرتا ہے اور کسی ایک ملک کا بھی بھارت کے خلاف ووٹ بھارت کو اس گرپ کا ممبر بننے سے روک سکتا ہے۔