نیٹو افغانستان میں اپنی 'ناکامیوں' سے سبق سیکھے گا
22 اکتوبر 2021مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے دفاع کی جمعرات کے روز برسلز میں ہونے والی میٹنگ میں افغانستان میں دفاعی کارروائیوں کے خراب اختتام کے باوجود اس دفاعی اتحاد کی قوت میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے میٹنگ کے بعد کہا،”ہم ایک زیادہ پیچیدہ اور مسابقتی دنیا کے مدنظر بڑے فیصلے کر رہے ہیں۔"
افغانستان پرطالبان کے کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد نیٹو کے وزرائے دفاع کی یہ پہلی براہ راست میٹنگ تھی۔ اسٹولٹن برگ نے بتایا،”وزرائے دفاع نے بحران اور تصادم کے دوران ہمارے اتحادیوں کی دفاع کے لیے ایک نئے دفاعی منصوبے کو منظوری دی ہے تاکہ”ہم اس امر کو یقینی بنا سکیں کہ ہمارے مناسب فورسز مناسب جگہ پر مناسب وقت پر موجود رہیں۔"
مغربی ممالک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اس میں 30 ملکی اتحاد کو دنیا میں کسی بھی جگہ زمینی فورسز سے لے کر سائبر حملے تک کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ نیٹو کے وزرائے دفاع فوج کو ہمیشہ تیار رہنے کے لیے 'صلاحیتی اہداف‘ کے ایک نئے قومی منصوبے پر بھی متفق ہوگئے۔ اس کے تحت جدید ٹیکنالوجی کی تیاری پرکام کرنے والی اسٹارٹ اپ کی مدد کے لیے 1.2ارب ڈالر کا فنڈ فراہم کیا جائے گا۔
اختلافات کے باوجود متحد رہنا ہوگا
نیٹو کی جدید کاری پر زور اپنی جگہ لیکن اس دفاعی اتحاد کی افغانستان میں دو دہائیوں پر وسیع فوجی کارروائیوں کے تباہ کن انجام نے اس کے امیج کو متاثر کیا ہے۔
نیٹو اپنی ناکامیوں اور افغانستان سے امریکا کے آناً فاناً نکل جانے کے فیصلے کی بعض اتحادیوں کی جانب سے نکتہ چینی سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے زور دے کر کہا کہ افغانستان کے حوالے سے اختلافات کے باوجود ہمیں متحد رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا،”افغان کے بحران سے نیٹو میں یورپ اور شمالی امریکا کے متحد رہنے کی ضرورت تبدیل نہیں ہوئی ہے، بلکہ بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجز میں ہمیں اپنے اتحاد اور طاقت کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔"
نیٹو سربراہ نے کہا کہ اتحاد کے اراکین اس پر غور کریں گے کہ طالبان پر دباو برقرار رکھنے کے لیے سفارتی اور مالیاتی ذرائع کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمار ے پاس کسی ابھرنے والی دہشت گردی کے خطرے پر ”دور سے ہی" حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ناکامیوں سے سبق سیکھیں گے
برسلز میں جاری دو روزہ میٹنگ کا ایک اہم ایجنڈا افغانستان میں نیٹو کے مشن کی ناکامیوں کا جائزہ بھی لینا ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ نیٹو افغانستان میں کوئی دیرپا ترقی قائم کرنے میں ناکام رہا۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے تاہم افغانستان میں نیٹو کے 20 سالہ مشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا،”ہمارا مشن ناکام نہیں رہا، ہم نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے نہیں دیا، ہم نے 20 برس میں نیٹو کے کسی بھی اتحادی پر ہونے والے حملے کو روک دیا۔ ہم نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اسے برقرار اور محفوظ رکھیں گے۔"
اسٹولٹن برگ نے کہا،”ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نیٹو اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی سے کیا سبق سیکھا گیا، کیا چیز کارآمد نہیں رہی اور کیا چیز درست ثابت ہوئی۔"
انہوں نے کہا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ افغانستان سے آناً فاناً واپسی، وہاں ناکامی اور طالبان کے کنٹرول میں چلے جانے کے حقیقتاً کیا اسباب رہے اور ہم نے ا ن سے کیا سبق سیکھا۔”یہ بڑے مشنوں اور نیٹو کے علاقے کے باہر کارروائیوں کے متعلق چیلنجز اور
خطرا ت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔" انہوں نے تاہم کہا،”یہ سبق بہر حال نہیں ہوسکتا کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو کبھی شامل ہی نہیں کریں گے۔"
جرمن وزیر دفاع نے کھلے لفظوں میں اعتراف کیا کہ افغانستان میں ملک کی تعمیر کا مقصد واضح طور پر ناکام رہا۔ انہوں نے کہا،”بالخصوص جب آپ طویل مدتی سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں تو آپ کو 20 برس سے زیادہ مدت درکار ہوتی ہے۔"
روس اور نیٹو اتحاد
نیٹو کے وزرائے دفاع نے روس کے مسئلے پر بھی غور کیا اور کہا کہ نیٹو اتحاد اور روس کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے زمانے کے بعد سے اب تک کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران روس اور نیٹو اتحاد کے مابین تناؤ بڑھا ہے۔ روس نے نیٹو میں اپنا مستقل مشن بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام اس مہینے کے اوائل میں اتحاد کی جانب سے آٹھ روسی شہریوں کو اتحاد سے نکالنے کے جواب میں اٹھایا ہے۔
نیٹو اتحاد نے روس پر جاسوسی کا الزام لگایا تھا، جسے کریملن مسترد کرتا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ روس نے اتحاد کے ماسکو کے دفتر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس کے ساتھ ان کے رابطے کا طریقہ کار موجود ہے، لیکن اب یہ کام زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔ نیٹو کے سربراہ کا تاہم کہنا تھا کہ یہ مشکل صورت حال اس بات کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرتی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)