نیٹو افغانستان کی مالی امداد اور عسکری تربیت جاری رکھے گا
9 جولائی 2016نیٹو رہنماؤں نے ہفتے کے روز اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد افغانستان کے لیے امداد اور فورسز کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے وارسا میں اس اتحاد کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ کابل حکومت اور افغان فورسز کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، تاکہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے محفوظ پناہ گاہ کبھی نہ بن پائے۔ اس اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد متوقع طور پر افغانستان میں اپنے تربیتی فوجی مشن کی معیاد میں توسیع کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں موجود آٹھ ہزار چار سو امریکی فوجیوں کو اگلے برس بھی تعینات رکھا جائے گا، تاکہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کی صلاحیتں متاثر نہ ہوں۔
افغان سکیورٹی فورسز کے لیے نیٹو کا ’سپورٹ مشن‘ 2017 ء کے آخر تک برقرار رہے گا اور اس دوران مغربی دفاعی اتحاد کے ماہرین افغان فورسز کو مشاورت اور تربیت فراہم کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے اور انہوں تربیت دینے والی غیر ملکی افواج میں سے زیادہ تر سال رواں میں ہندو کش کی اس ریاست میں اپنی موجودگی میں واضح کمی کی منصوبہ بندی کر چُکی تھیں تاہم افغانستان میں طالبان کی پُر تشدد کارروائیوں اور شورش زدگی کے تسلسل کے سبب غیر ملکی افواج کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ خاص طور سے گزشتہ برس شمالی افغان صوبے قندوز پر طالبان کے عارضی قبضے کے بعد افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے والے غیر ملکی فوجی دستوں کو انخلاء کے منصوبے پر دوبارہ غور وخوض کرنا پڑا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ بُدھ کو اعلان کیا تھا کہ اُن کا ملک افغانستان متعینہ اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کے منصوبے میں سُست روی لاتے ہوئے 8,400 امریکی فوجیوں کو آئندہ برس یعنی 2017ء تک افغانستان میں تعینات رکھے گا۔ اوباما نے اپنے بیان میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کو ’نازک‘ قرار دیا ہے۔
افغانستان میں اس وقت قومی سکیورٹی فورسز کی امداد کے لیے جاری سرگرمیوں میں 39 ممالک کے قریب 13 ہزار فوجی، جن میں ایک ہزار جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔
نیٹو لیڈروں کی طرف سے 2020 ء تک افغان سکیورٹی فورسز کی مالی امداد کو جاری رکھنے کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ غالباً چار بلین ڈالر سالانہ امداد جاری رکھی جائے گی۔
ہفتے ہی کو نیٹو کے سربراہان وارسا میں جاری اجلاس کے دوران اس بارے میں بھی فیصلہ کرنے والے ہیں کہ آیا شام میں فعال ’اسلامک اسٹیٹ‘ انتہا پسند گروپ سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہاں نیٹو کے نگران طیارے تعینات کیے جانا چاہییں؟ نیٹو اجلاس میں اس بارے میں بھی فیصلہ متوقع ہے کہ شورش زدہ ملک عراق میں نیٹو کے فوجی ٹرینرز کو دوبارہ بھیجا جائے۔