یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں فوج نہیں بھیجیں گے، نیٹو
31 جنوری 2022
یوکرائن تنازعے پر مختلف ممالک بظاہر سخت مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔ لیکں نیٹو نے کہا ہے کہ اگر روس نے حملہ کیا تو وہ فوجیں نہیں بھیجے گا۔ ادھر روسی وزیر خارجہ نے روسی میڈیا سے کہا کہ ماسکو اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
اشتہار
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے اتوار 30 جنوری کو کہا کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو نیٹو یوکرائن میں فوجیں نہیں بھیجے گا۔ ان کے بقول، ''ہم تعاون فراہم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''نیٹو کا رکن ملک ہونے اور ایک اہم اور مضبوط پارٹنر ملک ہونے، جیسے کہ یوکرائن، میں فرق ہے۔‘‘
دوسری جانب برطانوی سیکرٹری خارجہ لِز ٹرَس نے اسکائی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ لندن حکومت روسی صدر ویلادیمیر پوٹن پر پابندیاں مزید سخت کرنے کی کوشش کرے گی، تاکہ ان کی حکومت کے اہم ارکان کو کہیں چھپنے کی جگہ نہ مل سکے۔
'لنڈن گریڈ ‘ نشانے پر
لندن، ایک ایسا مالیاتی حب ہے، جو سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی روسی کاروباری شخصیات اور ان کی دولت کے لیے ایک پرکشش مقام خیال جاتا ہے۔ اسی لیے برطانوی دارالحکومت کو 'لنڈن گریڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
روس اور مغرب کے درمیان پھنسا یوکرائن
04:43
گزشتہ ہفتے امریکا نے خبردار کیا تھا کہ برطانیہ کی طرف سے روسی ''ڈرٹی منی‘‘ قبول کرنے سے واشنگٹن کی ماسکو پر دباؤ بڑھانے کی پابندیاں متاثر ہوں گی۔ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ یوکرائن کی سرحدوں کے قریب روسی فوج کی بڑھتی تعداد اور ممکنہ حملے کے خلاف جوابی حکمت عملی کے سلسلے میں رابطے جاری رکھے ہوئے ہے۔
ٹرس نے تاہم کہا کہ اس بات کا 'بہت کم امکان‘ ہے کہ برطانوی فوجیں یوکرائن کے لیے لڑائی میں حصہ لیں۔ ان کے بقول، ''ہم یوکرائنی فورسز کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
علاوہ ازیں امریکی نیوز چینل سی این این نے بتایا ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور روسی صدر ویلادیمیر پوٹن کے مابین رواں ہفتے بات چیت متوقع ہے۔ بورس جانسن نے گزشتہ روز کہا کہ یوکرائن میں روسی فوجی کارروائی کے بڑھتے ہوئے امکانات ''تشویش ناک ہیں۔‘‘
روس کے سکیورٹی خدشات
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنے موقف پر ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو غیرملکی مداخلت کے معاملے پر دفاعی ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی ناک کے نیچے، افغانستان، لیبیا، اور سابق یوگوسلاویہ میں یہی سب کچھ ہوچکا ہے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
لاوروف نے روسی چینل ون کے پروگرام 'سنڈے ٹائمز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کریملن اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ لاوروف کے بقول، ''جب سرد جنگ جاری تھی اور دیوار برلن موجود تھی، یہ واضح تھا کہ کس علاقے کا دفاع کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو اور یورپ میں تنظیم برائے سکیورٹی اور تعاون کو 'رسمی درخواست‘ بھیج دی گئی ہے، جس میں ان سے وضاحت طلب کی گئی ہے کہ 'وہ دوسروں کی سکیورٹی کی قیمت پر اپنی حفاظت کو کیسے مضبوط کرسکتے ہیں۔‘
یوکرائن اور روس کے درمیان مسلح تصادم کے خدشات
03:17
This browser does not support the video element.
روس نے ایک لاکھ سے زائد فوجی یوکرائن کی سرحدوں کے قریب جمع کر رکھے ہیں۔ حالیہ دنوں میں فوجی دستوں کے لیے اضافی انسانی خون کی فراہمی کی سہولیات کو بھی اس علاقے میں منتقل کیا گیا ہے، جس سے سرحد پر ممکنہ پرتشدد تنازعہ کا خدشہ ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم روس کے قومی سلامتی کے مشیر نکولائی پیٹروشیف نے یوکرائن پر حملے کو محض افواہیں قرار دیتے ہوئے اسے مغرب کی طرف سے 'خود ساختہ جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔ روسی انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق پیٹروشیف کا کہنا ہے روس نہ تو جنگ چاہتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی ضرورت ہے۔
اشتہار
امریکا کی کشیدگی کم کرنے کی پیشکش
ماسکو میں امریکی سفیر جون سلیوان نے کہا کہ امریکا نے فوجی مشقیں کم کرنے اور یورپ میں میزائلوں کی تعداد کم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ روسی وزیر خاجہ نے امریکا اور نیٹو کے اس ردعمل کو پہلے تو نظرانداز کردیا تاہم بعد میں اعتراف کیا کہ امریکی پیشکش دیگر ثانوی معاملات میں حقیقت کے قریب تر دکھائی دیتی ہے۔