نیٹو بھی امریکا کے ساتھ ہی افغانستان سے کوچ کے لیے تیار
15 اپریل 2021
امریکا کے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے اعلان کے بعد ہی نیٹو ممالک نے بھی اپنی افواج کے انخلا پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
نیٹو کے اتحادی ممالک نے بھی 14 اپریل بدھ کے روز ہونے والی اپنی ایک اہم میٹنگ میں افغانستان میں اپنا آپریشن ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے تناظر میں کیا گیا ہے جس میں امریکی فوج کو آئندہ 11 ستمبر تک افغانستان سے نکال لینے کی بات کہی گئی تھی۔
امریکا نے سن 2001 میں گیارہ ستمبر کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر جہادی تنظیم القاعدہ کے حملے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں نیٹو ممالک نے بھی امریکا کا ساتھ دیا تھا اور اپنی افواج افغانستان میں تعینات کی تھیں۔
برسلز میں ایک کانفرنس کے دوران نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹلن برگ نے اعلان کیا، ''نیٹو کے اتحادیوں نے منظم، مربوط اور سوچ سمجھ کر یکم مئی سے 'ریزولوٹ سپورٹ فورسز' کی واپسی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم افغانستان کو اپنی حمایت جاری رکھیں گے، ہمارے رشتوں میں یہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم افغانستان میں ایک ساتھ گئے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ مل کر وہاں اپنا انداز اور طریقہ اختیارکیا اور وہاں سے نکلنے میں بھی ہم ساتھ ہیں۔''
افغانستان سے افواج کے انخلا کے معاملے پر بات چیت کے لیے بدھ کے روز اتحادی ممالک کے دفاعی اور خارجی امور کی وزرا کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد نیٹو کے سکریٹری جنرل نے افغانستان کے تعلق سے یہ بیان جاری کیا۔
اس بیان کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کہا کہ افغانستان میں، '' ہمارے راستے کے ہر قدم پر جس طرح نیٹو نے ہمارے ساتھ یکجہتی کا مظاہر کیا ہے اسے امریکا کبھی نہیں بھول سکتا۔''
افغانستان میں نیٹو اتحاد کے تقریبا ًدس ہزار فوجی اب بھی موجود ہیں اور اس اتحاد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے اس انخلا کے عمل کے دوران اس کے فورسز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو نیٹو فورسز کی جانب سے اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
بائیڈن کے مطابق انخلا میں جلد بازی سے کام نہیں لیا جائیگا
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب کے دوران افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے منصوبے کا باضابطہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا آغاز یکم مئی سے ہوگا اور اختتام 11 ستمبر کو ہو جائیگا۔
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images
16 تصاویر1 | 16
ان کا کہنا تھا، ''یہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا وقت ہے اور امریکا اس انخلا کے عمل میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔''
امریکا اور جرمنی میں انخلا کے لیے قریبی روابط
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امریکی صدر جو بائیڈن سے بدھ کے روز فون پر بات چیت کے دوران افغانستان سے فورسز کے انخلا کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے اس فون کال کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''چانسلر اور صدر نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ اس بارے میں بھی بات چیت کی کہ نیٹو اتحادی فورسز کے انخلا کی ابتدا کیسے کر سکتا ہے۔''
ان کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں بھی افغانستان کے تئیں پالیسی کے حوالے سے آپسی تعاون برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
افغان صدر کے مطابق سکیورٹی فورسز چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں
افغان صدر اشرف غنی نے بھی بدھ کے روز فوجی انخلا کے حوالے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات چیت کی۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس گفتگو کے بارے میں کہا، ''افغانستان امریکا کے فیصلے کا احترام کرتا ہے اور آسا ن انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے ہم اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ افغانستان کی قابل فخر سکیورٹی اور دفاعی فورسز اپنی عوام اور ملک کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔''