نیٹو کی سترویں سالگرہ: جرمنی اور ترکی پر امریکی تنقید
4 اپریل 2019
مغربی دفاعی اتحاد کی سترویں سالگرہ کے موقع پر اتحادیوں میں بڑھتے ہوئے فاصلے نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا نے روس سے ہتھیار خریدنے کے معاملے پر ترکی اور کم دفاعی بجٹ کے معاملے پر جرمنی پر شدید تنقید کی۔
اشتہار
انتیس ممالک پر مبنی مغربی دفاعی اتحاد کے وزرائے خارجہ نیٹو کے ستر برس مکمل ہونے پر واشنگٹن میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اتحادی ممالک کے مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی نیٹو کے ارکان میں بڑھتی ہوئی خلیج سترہویں سالگرہ کے جشن کے ماحول کو ’بد نما‘ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے جرمنی پر نیٹو کے لیے ناکافی دفاعی بجٹ اور ترکی پر روس سے ہتھیار خریدنے کے معاملے پر شدید تنقید کی۔ ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جرمنی کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہمارے اتحادی روس پر اپنا انحصار بڑھاتے رہیں گے تو ہم مغرب کے دفاع کی یقین دہانی نہیں کرا سکتے۔‘‘
صدر ٹرمپ بھی اس حوالے سے جرمنی پر تنقید کرتے رہے ہیں اور مائیک پینس نے صدر ٹرمپ ہی کے الزامات دھراتے ہوئے کہا، ’’یہ بات بالکل ناقابل قبول ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت روسی جارحیت کے خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی اور نیٹو اتحادیوں کے مشترکہ دفاع سے غافل رہے۔‘‘
اسٹولٹن برگ کا کانگریس سے خطاب
مغربی دفاعی اتحاد کے سیکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے امریکی کانگریس سے خطاب میں افغانستان، روس کے ساتھ ’نئی سرد جنگ‘ کے خطرے اور ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے جیسے مسائل پر گفتگو کی۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ستر برس مکمل ہونے کے موقع پر ادارے کے سیکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے امریکی کانگریس سے ایک غیر معمولی خطاب کیا۔ اسٹولٹن برگ نے اس خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اتحادیوں پر دفاعی بجٹ میں اضافے کی پالیسی کو سراہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے صدر ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسی پر بھی شدید تنقید کی۔
ستر برس قبل نیٹو دفاعی اتحاد کی بنیاد بھی واشنگٹن ہی میں رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قریب دو دہائیوں سے جاری جنگ کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کو درست قرار دیا تھا۔ اسٹولٹن برگ نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے دور اقتدار کے دوران وہاں روا رکھے جانے والے ’ظالمانہ‘ طرز عمل اور نائن الیون کے ذمہ دار دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے جیسے اقدامات کا تذکرہ کیا۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغربی دفاعی اتحاد افغان جنگ میں ایک ساتھ شمولیت اختیار کی تھی اور وقت آنے پر انہیں ایک ساتھ ہی افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے اتحادیوں کی مشاورت کے بغیر شام سے فوجی انخلا کے فیصلے پر بھی بلواسطہ تنقید کی۔
’سرد جنگ نہیں چاہتے‘
نیٹو کے قیام سے اب تک مغربی دفاعی اتحاد روس کو اپنا اولیں دشمن سمجھتا اور قرار دیتا چلا آ رہا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے اپنے خطاب میں روس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ہتھیاروں کی نئی دوڑ نہیں چاہتے۔ ہم ایک نئی سرد جنگ کی شروعات بھی نہیں چاہتے۔ لیکن ہمیں کم عقلی کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہم روس کو تنہا نہیں کرنا چاہتے اور ماسکو کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ آئی این ایف معاہدے کے خاتمے کے بعد ماسکو پھر سے خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔
ش ح / ع ا (ایلزبتھ شوماخر، اے پی، اے ایف پی)
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔