نیٹو کی مشرقی دہلیز پر روسی جنگی مشقیں، عسکری طاقت کا مظاہرہ
مقبول ملک اے ایف پی
14 ستمبر 2017
روس نے بیلاروس کے ساتھ مل کر یورپی یونین اور نیٹو کی مشرقی دہلیز پر بڑی جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ماسکو کی طرف سے اس کی عسکری قوت کے اس دانستہ مظاہرے پر مغربی دفاعی اتحاد کی رکن ریاستوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
اشتہار
روسی دارالحکومت ماسکو سے جمعرات چودہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روس اور سفید روس کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی ان مشترکہ جنگی مشقوں کو روسی زبان میں ’زاپاڈ 2017‘ یا ’مغرب 2017‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ 20 ستمبر تک جاری رہیں گی۔
یہ فوجی مشقیں جن علاقوں میں کی جا رہی ہیں، ان میں روس کے قریب ترین مشرقی یورپی اتحادی ملک بیلاروس کے ریاستی علاقے کے علاوہ شمالی یورپ کا روسی علاقہ کالینن گراڈ، روسی سرحدی خطہ پسکوف اور لینن گراڈ کے علاقہ بھی شامل ہیں۔
ماسکو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان مشقوں میں قریب 13 ہزار فوجی، 70 جنگی طیارے، 250 ٹینک اور 10 جنگی بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں، جو اس دوران ایک ایسے تصوراتی دشمن کے خلاف اپنی ’فائر پاور‘ کا امتحان لیں گے، جو پولینڈ اور بالٹک کی جمہوریاؤں کے ساتھ سرحد کے قریب ہی کہیں موجود ہو۔
روسی وزارت دفاع نے ان مشقوں کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے چودہ ستمبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ’’یہ جنگی مشقیں صرف اور صرف دفاعی نوعیت کی ہیں اور یہ کسی بھی دوسری ریاست یا ریاستوں کے گروپ کے خلاف نہیں ہیں۔‘‘
دوسری طرف مغربی دفاعی تنظیم نیٹو کا دعویٰ ہے کہ روس نے اس بارے میں دانستہ طور پر راز داری سے کام لیا اور ماسکو نے ان جنگی مشقوں کی وسعت کے حوالے سے بھی حقائق اصل سے بہت کم بتائے ہیں۔ نیٹو کے مطابق اس کے چند مشرقی یورپی رکن ممالک کا اصرار ہے کہ روس اور سفید روس کی ان مشترکہ جنگی مشقوں میں ایک لاکھ سے زائد تک فوجی حصہ لے سکتے ہیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ روس نے ان ’وار گیمز‘ کا آغاز ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب سرد جنگ کے دور کے بعد سے لے کر اب تک کے عرصے میں ماسکو اور نیٹو کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
روس اور نیٹو کے مابین اس غیر معمولی کشیدگی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک مشرقی یوکرائن کے مسلح تنازعے میں کریملن کی طرف سے مداخلت، جس پر یورپی یونین نے ماسکو کے خلاف پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں اور دوسری امریکا کی قیادت میں نیٹو کی طرف سے مشرقی یورپ میں اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ، جس پر روس کی طرف سے سخت تنقید کی جاتی ہے۔
جمعرات ہی کے روز نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے روس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ روس ایسی فوجی مشقوں کو اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ اقدامات کے لیے استعمال کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔‘‘
نیٹو سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ وہ ان مشقوں کی وجہ سے نیٹو کے رکن کسی اتحادی ملک کے لیے کوئی فوری خطرہ تو نہیں دیکھ رہے لیکن روس کی طرف سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ دوطرفہ کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دینے والے اقدامات کرتا۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔