جرمنی نے نیٹو کے دفاعی اخراجات میں رواں برس ریکارڈ سطح پر تقریبا ًچونسٹھ ارب ڈالرخرچ کرنے کی بات کہی ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ رقم تین فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اشتہار
جرمنی نے نیٹو کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے رواں برس کے لیے 63 اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر خرچ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں جرمنی کی جانب سے نیٹو کے بجٹ میں یہ تین اعشاریہ دو فیصد کا اضافہ ہے۔
نیٹو کے اخراجات میں تعاون کرنے کے حوالے سے امریکا کا رکن ممالک پر کافی دباؤ رہا ہے اور جرمنی جیسے ممالک کی جانب سے نیٹو کے بجٹ میں اضافے سے امریکا اور یورپ کے تعلقات میں مزید بہتری کی توقع ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی پر یہ الزامات عائد کرتے رہے تھے کہ جرمنی نیٹو کے لیے اپنے دفاعی اخراجات میں اتنا تعاون نہیں کر رہا جتنی اس سے توقع ہے اور بالآخر انہوں نے جرمنی سے امریکی افواج کے انخلاء کا اعلان کر دیا تھا۔ حالانکہ نئے صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کے اس فیصلے پر روک لگا دی ہے اور امریکی افواج جرمنی میں رہیں گی۔
اضافہ توقع سے کم ہے
نیٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انہیں اس مسئلے پر صدر جو بائیڈن کی طرف سے دباؤ کی توقع ہے جو اپنے پیش رو ٹرمپ کے برعکس نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے خواہاں ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران اسٹولٹن برگ نے کہا، ''گزشتہ عشروں میں تمام امریکی صدور نیٹو کے اپنے یورپی اتحادیوں پر دفاعی بجٹ میں اضافے کی بات کہتے رہے ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے اپنے انتخاب سے قبل ہی یورپی اتحادیوں سے زیادہ خرچ کرنے کی بات کہی تھی۔
نیٹو سربراہی اجلاس کا پہلا روز، دفاعی بجٹ کی تقسیم اہم ترین موضوع
02:54
امریکا کا مطالبہ رہا ہے کہ نیٹو کے یورپی اتحادیوں کو اپنی جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد حصہ دفاع پر خرچ کرنا چاہیے اور اس لحاظ سے جرمنی کا یہ اضافہ اب بھی کم ہے۔
صدر ٹرمپ نے 2018 میں تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر یورپ کے رکن ممالک نے اپنی جی ڈی پی کا دو فیصد تک دفاعی بجٹ پر خرچ نہیں کیا تو وہ امریکا کو نیٹو سے الگ کر سکتے ہیں۔ جرمنی کے اپنے تخمینے کے مطابق نیٹو میں اس کے اخراجات کا شیئر اس کی جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ پانچ سات فیصد ہوتا ہے اور گزشتہ برس اس نے اسی حساب سے خرچ کیا تھا۔ گزشتہ برس کی رقم بھی اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں ایک اعشاریہ 36 فیصد زیادہ تھی۔
اشتہار
کورونا وبا کے باوجود اخراجات میں کمی نہیں
ایک مقامی جرمن جریدے کے مطابق جرمن فوج کے ایک داخلی جائزے کے مطابق دفاعی اخراجات کے لیے بجٹ ضرورت سے کافی کم ہے اور موجودہ مالی صورت حال کے پیش نظر اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ 2022 تک جرمنی سمیت نیٹو کے یورپی اتحادی ممالک اپنی جی ڈی پی کا دو فیصد دفاع پر خرچ کر سکیں گے جس کی ان سے توقع کی جا رہی ہے۔
تاہم نیٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دور میں جو معاشی صورت حال ہے اس کے تناظر میں اگر اس کے بجٹ میں اضافہ نہ کیا جائے تو اس میں کمی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے، ''ان تمام وجوہات کے سبب سکیورٹی کا بھی ایک نیا ماحول پیدا ہوا ہے اور اسی لیے سکیورٹی میں رقم کی فراہمی کو جاری رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔''
لیچ کارٹر ص ز/ ج ا
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔