نیٹو کے فیصلے افغانستان کا ملا جلا رد عمل
22 مئی 2012شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہی کانفرنس میں اس مغربی دفاعی اتحاد نے افغانستان کے بارے میں طے شدہ روڈ میپ کا اعادہ کیا۔ اس روڈ میپ کے مطابق کابل حکومت کو بہت جلد ملکی سکیورٹی کی ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر لینا ہوں گی۔ مغربی ممالک اُس کی مالی امداد کریں گے۔ ان فیصلوں پر افغانستان میں ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
افغان حکومت شکاگو میں نیٹو اجلاس کے اختتام پر ہونے والے فیصلوں سے بڑی مطمئن نظر آ رہی ہے۔ اجلاس میں شریک افغان وفد کے ایک رکن کے مطابق ’تمام تر امیدیں‘ پوری ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ کابل حکومت کے مطالبے پر نیٹو فورسز 2013ء تک افغانستان کی سلامتی کی تمام تر ذمہ داری افغان پولیس اور فوج کو سونپ دیں گی۔ تاہم 2014 ء میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے بعد بھی نیٹو افغان فوج کی عسکری تربیت کا سلسلہ 2024 ء تک جاری رکھے گا اور تب تک کابل حکومت کو جار بلین ڈالر سالانہ ادا کیے جاتے رہیں گے۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان جنان موسیٰ زئی تاہم کہتے ہیں کہ یہ رقم محض افغانستان کی مدد کے لیے نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ افغانستان کی سلامتی پر خطے اور تمام دنیا کی سلامتی کا دار ومدار ہے۔ اس اعتبار سے جو امداد ہمیں ملی ہے وہ افغانوں کے لیے کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ یہ خطے اور تمام دنیا کی سلامتی کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔‘‘
عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان اور تمام دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس پس منظر میں شکاگو کانفرنس کے نتائج کابل حکومت کی کامیابی ہیں، کیونکہ تمام دنیا نے افغانستان کی مدد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
یہ خیالات ہندوکش کے بہت سے ماہرین کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ اسے کابل حکومت کی طرف سے اصلیت کو چھپاتے ہوئے حالات پر قلعی کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نیٹو کابل حکومت کے مطالبات پر عمل پیرا ہے بلکہ معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ایک سابق افغان جنرل عتیق اللہ بریالائی کے مطابق،’’شکاگو کے فیصلوں پر افغان حکومت کو اطمینان کا اظہار کرنا ہی تھا۔ نیٹو نے افغانستان سے فوجی انخلا کا حتمی فیصلہ داخلہ پالیسی اور مالی وجوہات کے پیش نظر کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب طالبان مزید طاقتور ہو رہے ہیں۔ یہ افغانستان کے حق میں کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے۔‘‘
اسی قسم کے خیالات کا اظہار ریٹائرڈ افغان جنرل حسن مختار نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’افغان فوجیوں کی تربیت کی ناکافی ہے اور انہوں نے مختصر ٹریننگ کورس کیا ہوا ہے۔ یہ تربیت سنگین جھڑپوں اور میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ افغان پولیس کے بہت سے اہلکار ناخواندہ ہیں، اس لیے ان کی تعلیم و تربیت دشوار عمل ہے۔‘‘
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانسان کے سلامتی کے اداروں سے منسلک پولیس اہلکار اور فوجیوں کے اندر وفا داری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ریٹائرڈ افغان جنرل حسن مختار کا کہنا ہے کہ فوج کے بہت سے اہلکار اپنے قبائلی سرداروں اور وار لاڈز کے آگے جوابدہ ہیں۔ اس کے علاوہ افغان فوج اور پولیس کے مخصوص حلقے پر طالبان کے اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو کی طرف سے موجودہ افغان فوج کی نفری میں کمی کے فیصلے کو بھی ماہرین غلط حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔
S.Ratbil/km/S.Hans/aba