مغربی دفاعی اتحاد نیٹو آج بدھ اور کل جمعرات کو اپنے قیام کی ستّرویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اس سلسلے میں واشنگٹن میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی۔ نیٹو اتحاد چار اپریل 1949ء کو واشنگٹن میں قائم کیا گیا تھا۔
اشتہار
مغربی دفاعی اتحاد کے ستّر برس پورے ہونے کے موقع پر منعقد ہونے والی ان تقریبات کے ساتھ ساتھ اس عسکری اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے خارجہ روس کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کی صورتحال پر بھی صلاح و مشورے کریں گے۔ امریکی حکومتی ذرائع کے مطابق کل جمعرات کو ایک عشائیے کے موقع پر رکن ممالک کے دفاعی بجٹ بھی زیر بحث آئیں گے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی کے کم دفاعی اخراجات پر تنقید بھی کی۔
نیٹو کا قیام
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے پہلے سیکرٹری جنرل لارڈ ہیسٹنگز اِسمے نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ نیٹو کو اس خیال کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ سابق سوویت یونین کو باہر رکھا جائے، امریکا کو بالادستی حاصل ہو اور جرمنی کو سرنگوں رکھا جائے۔ یہ بیان انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس وقت دیا تھا، جب سابقہ مشرقی جرمن ریاست اور مشرقی یورپ سابقہ سوویت یونین کے زیر اثر تھے۔ یعنی نیٹوکا مقصد دوسری عالمی جنگ کے بعد اشتراکیت یا کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس موقع پر امریکی یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ یورپ سے چلے گئے تو ہو سکتا ہے کہ سوویت یونین اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہو جائے۔
جرمنی کی شمولیت
تاہم جرمنی کو بہت زیادہ عرصے تک دبا کر رکھنا ممکن نہ رہا، خاص طور پر مغربی جرمنی کو۔ مغربی جرمنی 1955ء میں نیٹو کا رکن بن گیا جبکہ مشرقی جرمنی نے وارسا پیکٹ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس تنظیم کی بنیاد 1955ء میں سوویت یونین نے رکھی تھی، جس کا مقصد نیٹو کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دینا تھا۔ تاہم یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے پر یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔
رکن ممالک
1949ء میں اپنے قیام کے موقع پر نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن یا نیٹو کے بارہ ارکان تھے۔ پھر ان کی تعداد چھبیس ہوئی جبکہ اب اس کے رکن ممالک کی تعداد انتیس ہو چکی ہے۔ 2004 ء میں سابق سوویت یونین کا حصہ رہنے والے ممالک ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوینیا کو بھی نیٹو کی رکنیت دے دی گئی جبکہ ان کے ساتھ ہی سلووینیا، سلوواکیا، بلغاریہ اور رومانیہ بھی نیٹو کے رکن بن چکے ہیں۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
ٹرمپ کی جرمنی پر تنقید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کی سترہویں سالگرہ کے موقع پر ایک مرتبہ جرمنی پر تنقید کے نشتر پھینکے ہیں۔ ٹرمپ نے مغربی دفاعی اتحاد کے سکریٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ سے ملاقات میں کہا، ’’جرمنی نیٹو کے اندر منصفانہ طریقے سے اپنے حصے کی ادائیگی نہیں کر رہا‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کرنے والے اس عسکری اتحاد کے رکن ممالک کو کوششوں کو بھی سراہا۔ واشنگٹن میں نیٹو کی سترہویں سالگرہ کی تقریبات میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے گزشتہ برس دھمکی دی تھی کہ دفاعی بجٹ سے متعلق معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں امریکا اس اتحاد سے نکل جائے گا۔ نیٹو کا بجٹ اس کے رکن ممالک مہیا کرتے ہیں، جس میں سب سے زیادہ حصہ امریکا کا ہی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ نیٹو نے سن 2014ء میں اتفاق کیا تھا کہ اس کے تمام 29 ممالک اپنے اپنے قومی جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) کا کم از کم دو فیصد دفاع کے شعبے میں 2024ء تک خرچ کرنے کی یقین دہانی کرائیں گے۔
نیٹو سربراہی اجلاس کا پہلا روز، دفاعی بجٹ کی تقسیم اہم ترین موضوع