1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو یا روس: بلغاریہ کو فیصلہ کرنے میں مشکل

7 مارچ 2022

بلغاریہ اور روس کے تعلقات روایتی طور پر بہتر ہیں لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس ملک میں واضح تقسیم پیدا ہو گئی ہے۔ اب اس ملک میں روس نواز اور نیٹو کے حامی گروپ نمایاں طور پر اُبھر آئے ہیں۔

Bulgarien Demonstration vor dem Denkmal der Sowjetischen Armee in Sofia
تصویر: Momtschil Karapouzanow

بلغاریہ میں ہر سال تین مارچ کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس ملک کو یہ آزادی روس اور عثمانی حکومت کی فوجوں کے درمیان سن 1877-78 کی جنگ کے بعد ملی تھی۔ اس دن کو یوم آزادی کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے گرمجوش تعلقات کا بھی ایک نشان قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرین میں روسی فوج کشی کے بعد ان دو طرفہ تعلقات میں پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

بلغاریہ کے قانون ساز کا یورپی پارلیمان میں نازی سلیوٹ

دو مارچ کو روسی سفیر نے انیسویں صدی کے تنازعے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تعمیر 'یادگارِ آزادی‘ پر پھول رکھے تو اُسی دن صوفیہ حکومت نے ایک فوجی جنرل کو روس کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا۔ اس گرفتاری کے بعد بلغاریہ کے  وزیر اعظم کیریل پیٹکوف نے روس کے حق میں بیان دینے پر اپنے وزیر دفاع کو فارغ کر دیا۔

بلغاریہ کے بیالیس سالہ وزیر اعظم کیریل پیٹکوفتصویر: BGNES

وزیر دفاع فارغ

وزیر دفاع اسٹیفن یانیو کو ہٹاتے ہوئے ملکی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی وزیر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی کے نکات فیس بک پر بیان کرتا پھرے اور نہ ہی کوئی وزیر یوکرین میں پیدا حالات کو جنگ کے علاوہ کچھ اور قرار دے۔

رومانیہ اور بلغاریہ، یورپی کچرے کے کوڑے دان

اسٹیفن یانیو مغربی دفاعی اتحاد کی فوج میں بھی ایک اعلیٰ افسر ہیں اور انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کردہ بیان میں یوکرین میں روسی جارحیت کو محض ایک 'آپریشن‘ کا نام دیا تھا۔ اس بیان میں ان کا انداز کم و بیش روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہی جیسا تھا۔

قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں وہ بلغاریہ میں نیٹو افواج کی تعیناتی پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی میڈیا جس طرح یوکرینی تنازعے کی کوریج کر رہا ہے، اس سے ان کے ملک کے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بلغاریہ کے وزیر اعظم (بائیں جانب) اپنے وزیر دفاع اسٹیفن یانیو کے ہمراہتصویر: BGNES

بلغاریہ کی حکومت میں تقسیم

مبصرین کے مطابق وزیر دفاع اسٹیفن یانیو کی برخاستگی نے وزیر اعظم کیریل پیٹکوف کی حکومت میں پائی جانے والی تقسیم کو واضح کر دیا ہے۔ روس کی یوکرین پر فوجی چڑھائی کے بعد سے بلغاریہ کے وزیر اعظم کو اپنی مخلوط حکومت میں پیدا تناؤ کو کنٹرول کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

یورپی یونین کے پاسپورٹوں کا کاروبار ’ایک خطرناک پیش رفت‘

پیٹکوف کی حکومت روس نواز سوشلسٹوں اور مغربی اصلاحات کے حامیوں پر مشتمل ہے۔ روس نواز سوشلسٹوں نے بلغاریہ اور یورپی یونین کی روس پر عائد پابندیوں کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے روسی ٹیلی وژن اور اسپٹنک پر پابندی کی بھی مخالفت کی تھی۔

بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے گلوبل انیلیسز کی ریسرچر رومینا فیلیپووا کا کہنا ہے کہ اپنے بیانات میں سوشلسٹوں نے یوکرین پر روسی حملے کی جہاں مذمت کی تھی وہاں انہوں نے کییف حکومت کی فوجی امداد اور روس پر پابندیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی تھی۔

بلغاریہ کے وزیر اعظم کیریل پیٹکوف اپنی کابینہ کے ہمراہتصویر: BGNES

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق رواں برس فروری میں بلغاریہ کی چالیس فیصد عوام اپنے ملک کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے مثبت رائے رکھتی تھی اوراٹھائیس فیصد اپنے ملک کی مغربی دفاعی اتحاد میں عملی کردار کے متمنی تھے۔

اس ملک میں یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر کی مقبولیت کم ہو کر صرف بتیس فیصد رہ گئی ہے اور سن 2022 کے اوائل میں یہ پچاس فیصد تھی۔

کرسٹوفر نہرنگ (ع ح، ا ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں