نیپالی شاہی خاندان کا قتل عام، دس سال گزرنے کے بعد بھی ایک بھید
1 جون 2011نیپالی عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی جون2001 کی رات کو شاہی محل میں رونما ہونے والے قتل عام کی اصل تفصیلات کی منتظر ہے۔ اُس روز شاہ بریندرا کے بیٹے شہزادے دیپندرہ نے شاہی محل کے ایک کمرے میں جمع اپنے ہی خاندان کے افراد پر گولیاں چلادیں تھیں۔ اس فائرنگ سے شاہ بریندرا اور ملکہ ایشوریہ سمیت خاندان کے نو افراد نے موقع پر ہی دم توڑ دیا تھا۔ بعد میں شراب کے نشے میں چور شہزادے نے بھی خود کشی کر لی تھی۔ کہتے ہیں کہ شہزادہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتا تھا اور والدہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر غصے میں آ کر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ تاہم اس کے علاوہ بھی اس قتل عام کے حوالے سے کئی کہانیاں موجود ہیں۔
شاہی محل کے سابق ملٹری سیکریٹری ویویک کمار شاھ کہتے ہیں کہ نیپال میں شاہی خاندان کے ساتھ رونما ہونے والے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے ایک اعلٰی سطحی حکومتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صرف یہ بتایا کہ یہ واقعہ کب اور کیسے ہوا۔ کیوں ہوا اس بارے میں کوئی بھی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ شاہ کے بقول ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ بیرونی اور شاہی محل کے اندرونی عناصر نے شہزادے کو کسی بات پر اکسایا ہو۔ ’’یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بھی ایسے گروپ موجود تھے، جو بادشاہت کا خاتمہ چاہتے تھے۔‘‘
شاہ بریندرا عوام میں بہت مقبول تھے اور ملک بھر میں انہیں نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے 1990ء میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی۔ عام انتخابات کرائے، جس میں نیپالی کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی فاتح رہی۔ اس طرح نیپال میں جمہوریت کا سفر شروع ہوا، جو شاہی محل کے قتل عام پر رک گیا۔
اس دور میں شاہ گیانندرا کی مقبولیت نہ ہونے کی برابر تھی۔ ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہے کہ شاہ گیانندرا کا اپنے ہی خاندان والوں کے قتل عام میں ہاتھ ہوسکتا ہے۔ بہرحال جس دن یہ واقعہ رونما ہوا شاہ گیانندرا نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں موجود نہیں تھے۔
آج اس قتل عام کو دس برس گزر چکے ہیں اور نیپالی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے من پسند بادشاہ کو کیوں موت کے گھاٹ اتارا گیا ؟ وہ چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی از سر نو تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن تشیکل دیا جائے۔ لیکن یہ کرے گا کون؟ کسی کو اب اس معاملے میں دلچسپی نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر نیپالی سیاست میں یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو اس ملک میں بادشاہت ابھی بھی قائم ہوتی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: کشور مصطفی