نیپالی پارلیمان تحلیل، اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا
21 دسمبر 2020![Nepal Präsidentin Bidya Devi Bhandari löst Parlament auf | Protest](https://static.dw.com/image/56001703_800.webp)
کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع جمہوریہ نیپال کی موجودہ حکومت کو گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی افراتفری کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم کھڑگا پرشاد شرما اولی نے سیاسی عدم اطمینان کی صورت حال دیکھتے ہوئے ملکی صدر سے پارلیمان تحلیل کرنے کی درخواست کی۔ اس درخواست کو دستور کے مطابق صدر بِدیا دیوی بھنڈاری نے منظور کر لیا۔ پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسے 'دستوری بغاوت‘ سے بھی تعبیر کیا۔ شرما اولی نے سن 2017 کے انتخابات کے بعد حکومت قائم کی تھی۔’بھارت میرا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہے‘ : نیپالی وزیر اعظم
عوامی احتجاج
پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے بعد اب وزیر اعظم شرما اولی کو کسی حد تک شدید عوامی احتجاج کا بھی سامنا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد کھٹمنڈو میں مظاہرین نے وزیر اعظم کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ان کے پُتلے بھی جلائے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اسے ملکی دستور کے منافی اقدام بھی خیال کیا۔ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کی تحلیل کو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنا بھی کہا۔
سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کی تحلیل چیلنج
نیپالی سپریم کورٹ نے اس کی تصدیق کی ہے کہ پارلیمنٹ کی تحلیل کے خلاف تین دستوری درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ ان دستوری پٹیشنز میں پارلیمان کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو موضوع بناتے ہوئے عدالتِ عُظمیٰ سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کو دستور کی خلاف ورزی قرار دے کر صدارتی حکم کو منسوخ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو دوبارہ بحال کرے۔
سپریم کورٹ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اس سلسلے ميں ابتدائی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ وکیل دنیش ترپاتھی نے نیوز ایجنسی روٗٹرز کو بتایا کہ وزیر اعظم کے پاس پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے اور وہ صرف ملکی استحکام کے لیے ایک متبادل حکومت قائم کرنے کے مجاز ہیں۔ ترپاتھی نے اسے دستوری بغاوت قرار دیا اور عدالت سے حکم امتناعی فوری طور پر جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔کیا نیپال بھارت پر انحصار کم کر رہا ہے؟
نئے انتخابات
پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے بعد وزیر اعظم شرما اولی نے اگلے عام انتخابات کی تاریخوں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے تیس اپریل اور دس مئی کو عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انتخابات معمول کے الیکشن سے ایک سال قبل کرائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخوں کی منظوری وزیر اعظم کی کابینہ نے دے دی ہے۔ اس کابینہ کے سات وزراء پارلیمان کی تحلیل کے خلاف احتجاج میں مستعفی بھی ہو گئے ہیں۔ نئے انتخابات کی وزیر اعظم کو ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ وہ اپنی سیاسی جماعت نیپالی کمیونسٹ پارٹی کی حمایت سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ ان کی سیاسی جماعت کے کئی اراکین نے انہیں منصب سے مستعفی ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
ع ح / ع ب (روئٹرز)