نیپال کی فوج نے پہاڑوں میں لاپتہ ہوجانے والے تارا ایئر لائن کے طیارے کے ملبے کا پتہ لگا لیا ہے جس پر 22 افراد سوار تھے۔ حکام نے کسی کے زندہ بچنے کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا ہے۔
اشتہار
نیپالی آرمی کے ترجمان نارائن سلوان نے پیر کے روز بتایا کہ فوج نے اس لاپتہ مسافر بردار طیارے کے ملبے کا پتہ لگالیا ہے جس پر 22 افراد سوار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی کے جوانوں نے جائے حادثہ پر تلاشی اور بچاو کی مہم شروع کردی ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں طیارے کے ملبے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر میں طیارے کے پچھلے حصے اور اس کے بکھرے ہوئے حصے دیکھے جاسکتے ہیں۔
نیپالی آرمی نے اس حادثے میں کسی کے زندہ بچنے کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں بتایا ہے۔
متعدد ممالک کے شہری طیارے پر سوار تھے
ایئرلائنز اور حکومتی عہدیداروں کے مطابق یہ طیارہ ایک پرائیوٹ کمپنی تارا ایئر کی ملکیت میں تھا۔ اس پر چار بھارتی، دو جرمن اور 16 نیپالی شہریوں سمیت22 افرا د سوا ر تھے۔
طیارے نے اتوار کے روز دارالحکومت کٹھمنڈو سے تقریبا ً 125 کلومیٹر دور پوکھرا قصبے سے جوم سوم نامی ایک مقبول سیاحتی اور مذہبی مقام کے لیے پرواز کیا تھا۔ گوکہ طیارے کی پرواز صرف 20 منٹ کی تھی لیکن منزل سے ذرا پہلے ہی ایرپورٹ کے ٹاور سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
خراب موسم اور تاریکی کی وجہ سے رات کو تلاشی کا کام ممکن نہیں ہوسکا۔ آرمی کے ہیلی کاپٹر اور پرائیوٹ ہیلی کاپٹروں نے آج پیر کی صبح تلاشی کا کام شروع کیا۔
نیپال کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان دیو چندر لال کرنا نے بتایا کہ متاثرین کو بچانے کے لیے پانچ ہیلی کاپٹروں کو تیار رکھا گیا ہے۔
فلائٹ ٹریکنگ کی ویب سائٹ فلائٹ رڈار 24 کے مطابق اس طیارے کا رجسٹریشن نمبر 9N-AET تھا اور اس نے اپنی پہلی پرواز اپریل 1979 میں کی تھی۔
پہلے بھی فضائی حادثات ہوتے رہے ہیں
نیپال میں دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ دنیا کے 14بلندترین پہاڑوں میں سے آٹھ نیپال میں ہیں۔ ان میں ماونٹ ایورسٹ بھی شامل ہے۔
بہت سے علاقوں میں انتہائی بلند اور مشکل مقامات پر طیاروں کو لینڈ کرنا پڑتا ہے۔یہاں کا موسم اچانک تبدیل ہوجاتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں واقع ہوائی پٹیوں تک پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔
اس ملک میں پہلے بھی فضائی حادثات ہوتے رہے ہیں۔ سن 2018 کے اوائل میں ڈھاکہ سے کٹھمنڈو کی پرواز کے دوران یو ایس۔ بنگلہ ایئرلائنس کے طیارے میں زمین پر اترتے وقت آگ لگ گئی تھی جس سے اس پرسوار71 افراد میں سے 51 ہلاک ہوگئے تھے۔ سن 2016 میں مایاگدی ضلع کے پہاڑوں میں ایک طیارہ حادثے کا شکار ہوجانے سے اس پر سوار 23 افراد کی موت ہوگئی تھی۔
ج ا/ ص ز (روئٹر، اے ایف پی)
ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے 61 برس بعد
تصویر: DW/S. Nestler
خراب موسم اور برفانی طوفان کے باعث ڈرامائی حالات میں مہم کو ملتوی کیا جاتا رہا۔ لیکن یکم جون 1953ء کو ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کے وقت یہ خبر لندن پہنچی کہ انتیس مئی کو ایڈمنڈ ہلیری اور تینزنگ نارگے نے دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کر لی ہے۔ برطانیہ بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تصویر: DW/S. Nestler
ایک طویل عرصے تک یہ مسئلہ سیاسی رہا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہلے کون پہنچا ؟ آسٹریلوی ایڈمنڈ ہلیری یا بھارتی نژاد نیپالی تینزنگ نارگے ؟ کئی سال بعد ہلیری نے یہ راز افشاں کیا کہ وہ نارگے سے تھوڑی دیر پہلے چوٹی تک پہنچ گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائن ہولڈ میسنر (دائیں طرف) وہ پہلے کوہ پیما ہیں، جنہوں نے 1978ء میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک ساتھی (بائیں طرف) پیٹر ہابلر کے ہمراہ پہلی مرتبہ سانس کے ماسک کے بغیر ایورسٹ کو فتح کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 1990 کے بعد ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے سیاحت کا آغاز کر دیا گیا۔ اس دوران اس چوٹی کو چھ ہزار سے بھی زائد مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ چوٹی تک پہنچنے کے دو راستے ہیں اور دونوں پر ہی کوہ پیماؤں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اچھے موسم میں دنیا کی بلند ترین چوٹی تک پہنچنے اور نیچے اترنے کے لیے کم از کم چار دن درکار ہوتے ہیں۔ سبھی کوہ پیما موسم کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سفر کا آغاز کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں چوٹی پر درجنوں لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بڑی بڑی سیڑھیوں کی مدد کے بغیر بیس کمپ سے چوٹی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ خطرناک راستے انہی سٹرھیوں اور رسیوں کی مدد سے عبور کیے جاتے ہیں۔ بیس کیمپ سے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک درجنوں عارضی پل بھی بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گزشتہ برس ایک 80 سالہ جاپانی نے یہ چوٹی سر کی تھی۔ اس طرح یوشیرو میورا یہ چوٹی سر کرنے والے بزرگ ترین شخص بن گئے تھے۔ اس چوٹی کو سر کرنے والے سب سے کم عمر کوہ پیما تیرہ سالہ جارڈن رومرو ہیں۔ اس امریکی لڑکے نے سن 2010ء میں یہ چوٹی سر کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بیس کیمپ میں ہیلی کاپٹر موجود رہتے ہیں۔ سن 2003ء میں ایک ہیلی کاپٹر بیس کیمپ میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ ماؤنٹ ایورسٹ پر برفانی تودے گرنے کے نتیجے میں 16 مقامی گائیڈز کی ہلاکت کے بعد چوٹی سر کرنے کی تمام تر مہمات معطل کر دی گئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images
کوہ پیما اپا شیرپا یہ چوٹی سب سے زیادہ یعنی 21 مرتبہ سر کر چکے ہیں۔ لیکن ان کا یہ ریکارڈ اب خطرے میں ہے۔ گزشتہ سال نیپالی کوہ پیما پوربا تاشی نے بھی اکیسویں مرتبہ یہ چوٹی سر کر لی ہے۔ اپا شیرپا سن 2010ء میں اپنے کیرئیر کے اختتام کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایڈمنڈ ہلیری کا موقف تھا کہ ایورسٹ کو فتح کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد کو محدود کیا جائے۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے اور ایورسٹ ٹورازم نیپالی حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔