نیپال میں تین برس قبل آنے والے طاقت ور زلزلے کی نتیجے میں شدید نقصان ہوا تھا، جب کہ اس زلزلے کے بعد نیپال کو اربوں ڈالر بین الاقوامی برادری کی جانب سے دیے گئے، تاہم یہ خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ یہ پیسہ ضائع کیا گیا۔
اشتہار
ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر امداد کو استعمال کرتے ہوئے متاثرہ اور پرانے گھروں کی مرمت کی جا سکتی تھی، تاہم حکومت نے غیرضروری طور پر نئے گھروں کی تعمیر کی، جس کی وجہ سے کثیر سرمایہ ضائع ہوا۔ اپریل 2015 میں آنے والے خوف ناک زلزلے کو تین برس مکمل ہو گئے ہیں اور اس دوران نیپال کو بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے دی جانے والی نو ارب ڈالر کی امداد کے درست استعمال پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے زلزلے نے اس ملک کے متعدد علاقے تباہ کر دیے تھے۔
نیپال میں شدید زلزلہ، سینکڑوں ہلاکتیں
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، ’نیپال میں آنے والا یہ زلزلہ انتہائی شدید نوعیت کا تھا۔ ماضی میں آنے والے زلزلوں کی نسبت اس سے نقصان یقینا زیادہ ہوا ہو گا۔ شدید جانی نقصان کے خدشات بھی موجود ہیں۔‘
تصویر: imago/Xinhua
نیپال میں 80 برسوں کا شدید ترین زلزلہ
اس زلزلے کے نتیجے میں بھارت میں کم از کم 34، تبت میں 12 جب کہ بنگلہ دیش میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ اس زلزلے کے جھٹکے پاکستانی شہر لاہور تک میں محسوس کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے کے روز آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 11 سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ جس شدت کا یہ زلزلہ تھا اور اس کے نتیجے میں جس قدر بدترین تباہی ہوئی ہے، اس سے واضح ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
زلزلے کا مرکز
امریکی ارضیاتی سروے نے ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت ابتدا میں 7.7 بتائی تھی، تاہم بعد میں اسے بڑھا کر 7.9 بتایا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ زلزلہ کھٹمنڈو سے مغرب کی طرف واقع شہر پوکھارا سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر زمین میں دو کلومیٹر کی گہرائی میں آیا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر برفانی طوفان
زلزلے کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی برفانی طوفان پیدا ہو گیا، جس کے نتیجے میں کوہ پیماؤں کے بیس کیمپ کو نقصان پہنچا اور متعدد کوہ پیما ہلاک ہوئے۔ اس بیس کیمپ سے بھی تیس زخمی کوہ پیماؤں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Phurba Tenjing Sherpa
قدیم ٹاور بھی زمین بوس
نیپالی میڈیا کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں کھٹمنڈو شہر میں واقع 19ویں صدی کا ایک تاریخی ٹاور بھی منہدم ہو گیا۔ دھرارا ٹاور سن 1832ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور دس برس قبل اسے سیاحوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس ٹاور کی آٹھویں منزل میں ایک بالکونی سے شہر کو دیکھنے ہزاروں شائقین آتے تھے۔ اسے بھیم سین ٹاور بھی کہا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/R. Harding World Imagery
جانی نقصان ایک لاکھ تک ہو سکتا ہے
امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے کو ’ریڈالرٹ‘ قرار دیتے ہوئے اس سے ہونے والی جانی نقصان کو ’ایک ہزار تا ایک لاکھ‘ جب کہ انفراسٹکچر کو ہونے والے نقصان کو ’سو ملین تا دس بلین‘ میں رکھا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق اس زلزلے کو 105 ملین افراد نے محسوس کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
شدید تباہی
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے مغرب میں آنے والے اس شدید زلزلے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور درجنوں عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق زلزلے کے باعث عمارتیں گرنے کی وجہ سے پورا شہر گرد کی لپیٹ میں آ گیا۔
تصویر: P. Mathema/AFP/Getty Images
زخمیوں کی تعداد غیر واضح
مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق کھٹمنڈو کے مرکزی ہسپتال میں متعدد ایسے زخمیوں کو لایا گیا، جن کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹے ہوئے ہیں۔ فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ طاقت ور زلزلے کے نتیجے میں مجموعی طور پر کتنے افراد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
زیادہ تر شہری سڑکوں پر
کھٹمنڈو کے آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ ذرائع کے مطابق اس قدرتی آفت کے بعد زیادہ تر شہری اپنے گھروں سے باہر ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ والے پہاڑی خطے کو بھی زلزلے نے متاثر کیا ہے اور وہاں بھی انسانی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Shrestha
کھٹمنڈو کے بیشر علاقے متاثر
نیپالی دارالحکومت کی گنجان آبادی، وہاں ہونے والی تباہی، عمارات کے انہدام اور تنگ گلیوں کی وجہ سے متاثرہ جگہوں تک رسائی کے مسائل کے تناظر میں خدشہ ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد کہیں زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
تباہی کی تصویری داستان
انٹرنیٹ پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، کئی عمارات کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جب کہ لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ شدید زلزلے کے جھٹکے شمالی بھارت میں نئی دہلی تک محسوس کیے گئے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Shrestha
دربار اسکوائر کو پہچاننا مشکل
کھٹمنڈو شہر کے قدیمی علاقے ’دربار اسکوائر‘ کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق زلزلے سے دربار اسکوائر کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ فی الحال اسے پہچاننا بھی مشکل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
1934ء کا زلزلہ
سن 1934ء میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں آباد اس ملک میں آنے والے 8.3 کی شدت کے زلزلے میں ساڑھے آٹھ ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نیپال میں بلڈچینج نامی خیراتی ادارے کے ڈائریکٹر نول توفانی کے مطابق، ’’بہت سے افراد کو ایک غلط حل تجویز کیا جا رہا ہے۔‘‘
بین الاقوامی ڈونرز نے نیپال میں زلزلہ پروف مکانات کی تعمیر کے لیے چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا اور اس حوالے سے نعرہ تھا، ’’بہتر تعمیر نو‘‘۔
حکومت نے اس حوالے سے سات لاکھ آٹھ ہزار ایسے خاندانوں کی فہرست مرتب کی تھی، جن کے گھروں کو نقصان پہنچا اور ان کو تین ہزار ڈالر نقد کے پروگرام کے تحت اپنے مکانات دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے سرمایہ مہیا کرنے کی تجویز دی گئی، جب کہ زلزلے کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے حامل گھروں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
اس پروگرام کے لیے دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے، تاہم اس پروگرام کے تحت گزشتہ تین برسوں میں فقط 15 فیصد افراد نے دوبارہ گھر تعمیر کیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پروگرام پر سیاسی اختلافات، بیوروکریسی کی مشکلات اور متاثرہ افراد کے درمیان یہ ابہام کہ یہ سرمایہ حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے، جیسے عوامل اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔
فطرت کے عجیب رنگ
سیلاب، زلزلہ، طوفان: 2015 ء کو متعدد ناگہانی آفات کا سامنا رہا۔ جن کے طویل مدتی نتائج آبادی والےعلاقوں میں بڑی تباہی کی شکل میں سامنے آئے۔
تصویر: Imago/Xinhua
خطرناک رومان
43 سال سے پکنے والا چلی کا لاوا ’’کالبوکو‘‘ گزشتہ برس اپریل میں پھٹ ہی گیا۔ اس آتش فشاں کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی راکھ 15 کیلو میٹر اونچے بادلوں تک پھیل گئی۔ 20 کلومیٹر ارد گرد کے علاقوں کو خالی کروالیا گیا۔ چلی کے سب سے بڑے شہر کا ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا، چند ہی روز کے وقفے سے ’’کالبوکو‘‘ دوسری اور تیسری بار پھٹا۔
تصویر: Reuters/R. Arenas
ہنگامی صورت حال میں ریسکیو
فوجی نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں زلزلے سے منہدم ہو جانے والے ایک گھر کے ملبے تلے دبے ایک چھوٹے بچے کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی تک محسوس کیے گئے۔ نیپالی حکومت کے مطابق اس زلزلے میں آٹھ لاکھ آٹھ ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/J. Gratzer
سر سے پیر تک راکھ ہی راکھ
انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے شمال میں راقع ماؤنٹ سینابونگ کی زنگ کی مانند بھورے رنگ کی راکھ آنکھ، ناک اور جلد کے پوروں میں گھُس جاتی ہے۔ جولائی کے مہینے میں سماٹرا کے جزیرے سے بہنے والے 2460 میٹر اونچے لاوے نے ارد گرد کے علاقوں میں بے تحاشہ راکھ اگُلی تھی۔ یہ راکھ گھروں اور سڑکوں تک پھلی تھی اور اس سے بچنے کے لیے اکثر لوگ پلاسٹک سے اپنے جسم کو سر سے پیر تک ڈھانک کر باہر نکلتے تھے.
تصویر: Reuters/Antara Foto/R. Muharrman
آگ کے خلاف ڈٹے انسان
ستمبر میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں متعدد جنگلات میں آگ لگی۔ کیلی فورنیا ایک صدی سے خُشک سالی کا شکار ہے اور کسی بھی ناگہانی آفت کی بس ایک چنگاری کافی ہوتی ہے اسے اپنی آگ کی لپیٹ میں لینے کی۔ ہزاروں گھر اس کی زد میں آ چُکے ہیں۔ فائر بریگیڈ کے دس ہزار سے زائد کارکن اس صورتحال سے نمپٹے کے لیے تعینات رہ چُکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Edelson
طوفان سے پہلے کوئی خاموش نہیں
ستمبر کے اواخر میں چینی صوبے فیوجیان میں 119 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والا طوفان Dujuan روک تھام کی تمام تر کوششوں کے باوجود چین کے کم ازکم 400 گھروں کو بہا لے گیا اور اکتیس ہزار ہیکٹر زمینی رقبہ زیر آب آ گیا۔ اس سے پہلے وہ تائیوان میں جانی اور مالی نقصانات کا سبب بن چُکا تھا۔
تصویر: Reuters/China Daily
بھارتی ریاست زیر آب
بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں 100 سال میں ہونے والی شدید ترین بارش میں تقریبا 280 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے بھارت کا چوتھا بڑا شہر اور موٹر کار سازی اور آئی ٹی آؤٹ سورسنگ کا مرکز ہے۔ اس کے بعض علاقوں میں دس دس فٹ سے بھی زیادہ پانی کھڑا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
6 تصاویر1 | 6
اے ایف پی کے مطابق بہت سے افراد نے اپنے پرانے اور تباہ حال مکانات چھوڑ کر نئے اور چھوٹے مکانات تعمیر کر لیے، جن پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ ہوا جب کہ کئی افراد نے زلزلہ پروف مکانات تعمیر کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر روایتی تعمیرات کا سہارا لیا۔
بلڈ چینج کے مطابق اگر پرانے مکانات کی مرمت کر کے انہیں زلزلہ پروف بنا دیا جاتا، تو اس سرمایے سے ڈھائی لاکھ مکانات دوبارہ قابل رہائش بنائے جا سکتے تھے۔