1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں اگنے والی نئی جڑی بوٹی، جنگلی حیات کے لیے شدید خطرہ

25 جنوری 2011

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے کوئی 200 کلو میٹر دور جنوب مغربی علاقے میں اگنے والی ایک غیر مقامی جڑی بوٹی علاقے میں موجود پودوں کو تیزی سے تباہ کر رہی ہے، جس کے باعث مقامی جنگلی حیات کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

تصویر: Daniel Pelz
بنمارا نامی جڑی بوٹی جنگلی حیات کے لیے شدید خطرہ قرار دی گئی ہےتصویر: AP

بنیادی طور پر جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والی بنمارا یعنی جنگلوں کی قاتل نامی یہ جڑی بوٹی نیپال میں پہلی بار 1975 میں شناخت کی گئی تھی۔اس بوٹی کو ’ mile-a-minute ’ یعنی ’ایک منٹ میں ایک میل‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ جڑی بوٹی ایک دن میں 2.5 سینٹی میٹر تک بڑھتی ہیں اور اس طرح یہ نیپال کے چھٹوان نیشنل پارک کے تقریبا 932 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیل چکی ہے۔

محقق اور فلم ’ایک منٹ میں ایک میل۔ چھیٹوان نیشنل پارک کو لاحق سنجیدہ خطرہ‘ کی پروڈیوسر چندہ رانا کا کہنا ہے کہ یہ جڑی بوٹی ایک دن میں 40 ہزار تک بیچ پیدا کرتی ہے جو پورے جنگل میں مختلف ذرائع سے پھیل سکتے ہیں، ’’اگر اس کو روکنے کے لیے اجتماعی کوشش نہ کی گئی تو اگلے پانچ برسوں میں اس پارک کی 50 فیصد حیات ختم ہو جائے گی۔‘‘

جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والوں کے مطابق اس بوٹی سے پیدا ہونے والا خطرہ جنگلی حیات کو لاحق چند بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ اس علاقے میں نہ صرف ایک سینگ والے نایاب گینڈے بلکہ نایابی کے خطرے میں گھرے بنگالی چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔

چھٹوان نیشنل پارک میں نایاب نسل کے بنگالی چیتے بھی خطرے سے دوچار ہیںتصویر: AP

دو سال قبل نیپال کی حکومت نے جنگلی بوٹیوں کی نشونما پر نظر رکھنے کے لیے ’حیاتیاتی نگراں‘ مہم شروع کی تھی۔ اس کے تحت 2010 میں رانا نے ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر اس جڑی بوٹی کے خاتمے کی مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔اس موقع پر نیپالی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس جڑی بوٹی سے نہ صرف علاقے کی نباتیات، حیاتیات بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی خطرہ ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اس بوٹی کے پھیلاؤ کی روک تھام کرنے میں حصہ لیا جائے۔

گوکہ کئی تنظیموں کی جانب سے اس بوٹی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تحقیقات کی جاری ہیں تاہم ابھی تک اس کی روک تھام کا کوئی حتمی طریقہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ سائنسدانون کے مطابق اس کی مکمل روک تھام کے لیے کوئی طریقہ دریافت کرنے میں ابھی مزید چند برس درکار ہوں گے تاکہ اصل مسلئے کا پتہ لگایا جا سکے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں