1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں بادشاہت کے آخری لمحات

Adnan Ishaq27 مئی 2008

نیپال کی نئی منتخب اسمبلی ملک کا نیا دستورمرتب کرے گی۔ اور ساتھ ہی نئی اسمبلی سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ملک میں بادشاہت کا خاتمہ کردے گی۔

نیپال کے شاھ گیانندرہتصویر: picture-alliance/ dpa

آج نیپال کی نئی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے۔ 601 رکنی اس نئی اسمبلی میں ماؤنوازوں کو اکثریت حاصل ہے۔ ملک میں بادشاہت کے خاتمے کے سلسلے میں نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس کل بدھ کے روزہو رہا ہے۔ جس میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا جائے گا۔ اور بل کی منظوری کے ساتھ ہی نیپال میں 240 سال سے قائم بادشاہت ختم ہو جائے گی۔

آج حلف برداری کی تقریب کے فورا بعد شاھ گیانندرہ کو شاہی محل سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ تین کاروں کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ شاھی محل سے نکلے۔ جس میں وہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ شاھ گیانندرہ کے پریس سیکریٹری نےکہا کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ شاھ کہاں جا رہے ہیں ؟اور آیا کہ وہ شاہی محل واپس آئیں گے بھی یہ نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس بارے میں صرف شاھ کی سیکیورٹی پرمعمورافراد ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔


اس سے قبل نیپالی حکومت کے ایک سینئر وزیرRam Chanda Paudel نے شاھ گیانندرہ سے اپیل کی تھی کہ وہ فوری طور پر شاہی محل خالی کردیں۔ ماؤ نواز Paudel نے مزید کہا کہ اگر شاہ نے ایسا نہیں کیا توپھر طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاھ گیانندرہ کودیئے جانے والے تمام سرکاری الاؤنسس اور سہولیات کل سے منسوخ کر دی جائیں گی۔

شاہی محل سے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن شاھ گیانندرہ کے قریبی حلقوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ نئے آئیں کی تیاری تک بادشاہت سے متعلق اپنے فیصلے کو محفوظ رکھیں۔ شاھ کی حامی ایک سیاسی جماعت کے رہنما Kamal Thapa نے کہا کہ اگر جلد بازی میں ملک کو جمہوریہ بنیا گیا تو اس سے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

نیپال کے ماؤ نواز لیڈر پراچنداتصویر: AP


اس سے قبل ماؤنوا، نیپالی کانگریس اوراعتدال پسند نیپالی کمینسٹ پارٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں ملک کے صدر کے اختیارات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ابتداء میں ماؤنوازوں کے خیال میں ملک اورحکومت کاسربراہ ایک یعنی وزیر اعظم ہونا چاہئے ۔ بقیہ دونوں جماعتیں اس بات پر مضر تھیں کہ ملک چلانے کے اختیارات ویزاعظم کے پاس جبکہ رسمی تقریبات کے لئے صدر ہونا چاہیے۔ اب ان تینوں جماعتوں میں اختیارات کے حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

ملک کی 601 رکنی اسمبلی میں ان تینوں اہم جماعتوں کو ایک تہائی سے زائد اکثریت حاصل ہے اوراس بارے میں تینوں جماعتیں متفق ہیں کہ ملک کا نیا سربراہ ماؤ نواز جماعت سے ہو گا۔ جس کے لئے پراچندا کا نام تجویز کیا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں