نیپال میں بارشیں اور سیلاب، ہلاکتیں بڑھ کر 148 ہو گئیں
29 ستمبر 2024
نیپال میں مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 148 ہو گئی ہے۔
اشتہار
جمعرات 26 ستمبر کو شروع ہونے والی تباہ کن بارشوں نے ملک کے زیادہ تر حصوں کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر مشرقی اور وسطی علاقوں کو۔
نیپال پولیس کے ترجمان دان بہادر کرکی نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ''جمعے سے اب تک مختلف علاقوں میں 101 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ لاپتہ افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس میں کچھ اور دن لگ سکتے ہیں۔‘‘
ہفتہ کی رات سے اب تک سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں نے دارالحکومت کٹھمنڈو کے مضافات میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دبی بسوں میں سے کم از کم 35 لاشیں نکالی ہیں۔
نیپال پولیس کے مطابق متاثرہ علاقوں سے تقریباﹰ 3700 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
آدھے سے زیادہ ہلاکتیں دارالحکومت کٹھمنڈو اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں ہوئیں، جو اچانک سیلاب اور تودے گرنے سے بری طرح متاثر ہوئے۔
مقامی میڈیا نے کٹھمنڈو میں ہونے والی بارشوں کو کئی دہائیوں کی بدترین بارش قرار دیا ہے۔
نیپال حکومت نے زخمیوں کے لیے مفت علاج اور متاثرہ خاندانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
موسلا دھار بارش نے سڑکوں اور پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اگرچہ اندرون ملک پروازیں جزوی طور پر بحال ہوگئی ہیں، لیکن کٹھمنڈو کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے والی کئی اہم سڑکیں بند ہیں۔
لینڈ سلائیڈنگ کے سبب کچھ علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ بھی بند ہیں۔
حکومت نے ملک بھر کے تمام اسکولوں کو تین دن کے لیے بند کرنے اور اتوار سے شروع ہونے والے تمام جاری امتحانات کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزارت تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایک بیان کے مطابق، ''اگرچہ کٹھمنڈو میں موسم میں بہتری آئی ہے ، لیکن حکام نے اتوار تک ملک کے دور دراز علاقوں میں مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔‘‘
نیپال کے پہاڑی علاقے اور متعدد دریاؤں کے سبب یہ ملک اکثر قدرتی آفات کا نشانہ بنتا ہے۔
کھٹمنڈو میں سانس لینا دشوار
نیپال کا دارالحکومت کھٹمنڈو دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا شہر ہی نہیں بلکہ اس کا شمار آلودہ ترین شہروں میں بھی ہوتا ہے۔ اس شہر کے باسی صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
تصویر: Marco Panzetti
تب اور آج
کھٹمنڈو کی یہ تصویر 1967ء کی ہے اور اس تصویر میں واضح طور پر درختوں اور سبزہ زاروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اب درخت اور سبزہ زار غائب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ بھی آلودگی کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہے۔ 2018ء میں نیپال فضائی طور پر آلودہ شہروں کی فہرست میں 180 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: Marco Panzetti
گاڑیوں کا شہر
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں پر آلودہ ہوا باہر نکل نہیں پاتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے اڑنے والی دھول اس آلودگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہر کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹے بھی آب و ہوا کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم شہر کے ٹریفک کا قصور سب سے زیادہ ہے۔
تصویر: Marco Panzetti
پیدل چلنے والے
کھٹمنڈو میں چودہ فیصد سالانہ کے حساب سے گاڑیاں بڑھ رہی ہیں، جو آبادی میں اضافے سے تین گنا تیز ہے۔ گاڑیوں میں اضافے کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو شدید مشکلات اور طبی حوالےسے خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گاڑیوں کا شور سماعت اور فشار خون پر اثر انداز ہو رہا ہے جبکہ آلودگی سے آنکھوں سے پانی آنا اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
تصویر: Marco Panzetti
زہر آلود ہوا
فضائی آلودگی شہر کے باسیوں کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ سالہ نرائن دہل کے مطابق، ’’ میری ناک خشک رہتی ہے، مجھے سر درد کی بھی شکایت ہے اور میرے پھیپڑے بھی صحیح کام نہیں کر رہے۔ اسی لیے میں دھول مٹی سے بچنے کے لیے ماسک پہنتا ہوں۔‘‘
تصویر: Marco Panzetti
محدود تحفظ
کھٹمنڈو میں دو دن بعد ہی چہرے کے ماسک پر دھول مٹی کے نشانات واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ ماسک انتہائی باریک ذرات کے خلاف بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتے اور اس طرح یہ چھوٹے ذرات پھیپڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح دل اور نظام تنفس کے مسائل کے ساتھ ساتھ سرطان کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
تصویر: Marco Panzetti
کوئی فکر نہیں
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں ماسک استعمال نہ کرنے والے افراد کی کمی نہیں۔ یہ نوجوان شہر کی ایک مصروف ترین شاہراہ پر بغیر کسی ماسک کے کوٹن کینڈی فروخت کر رہا ہے۔
تصویر: Marco Panzetti
آبادی میں اضافہ
نصف صدی قبل تک نیپالی دارالحکومت میں چند ہزار لوگ آباد تھے۔ آج یہاں کی آبادی تین ملین تک ہو چکی ہے۔ بغیر کسی منظم منصوبہ بندی کے کھٹمنڈو کی جانب ہجرت قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ کنتی پاتھ کی طرح کے شہر کے اہم ترین علاقے ٹریفک کے دھوئیں سے شدید آلودہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Marco Panzetti
پرانی یادیں
انتیس سالہ بدھ بھکشو پاسنگ تھنگلو کہتے ہیں،’’ میں بچپن سے کھٹمنڈو آ رہا ہوں، اس وقت آب و ہوا اتنی بری نہیں تھی۔ میں جب 2015ء میں یہاں دوبارہ آیا توسانس لینا دشوار تھا۔ زلزلے نے معاملات کو مزید دشوار کر دیا کیونکہ اب جاری تعمیرات کی وجہ سے دھول مٹی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔‘‘ اپریل 2015ء کے زلزلے بعد میں کھٹمنڈو میں نو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Marco Panzetti
آلودگی اور مورتیاں
یہاں تک کہ مورتیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کھٹمنڈو کے ایک کاریگر نے دھول سے محفوظ رکھنے کی خاطر تارا دیوی کی پیتل سے بنی ہوئی مورتی کے گرد کاغذ لپیٹا ہوا ہے۔ کاریگر کا خیال ہے کہ آلودگی مورتی کے چہرے کے نقوش کو خراب کر سکتی ہے۔