نیپال میں تباہ کن زلزلے کا ایک برس مکمل ہونے پر اس جنوبی ایشیائی ملک میں خصوصی یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ملک بھر میں ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے تھے۔
اشتہار
نیپال میں گزشتہ برس 7.8 کی شدت کا یہ زلزلہ پچیس اپریل کو آیا تھا تاہم نیپالی کلینڈر کے مطابق اس کا ایک برس آج چوبیس اپریل بروز اتوار مکمل ہوا۔ اس مناسبت سے دارالحکومت کھٹمنڈو میں مرکزی یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی بھی شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں بہت سے حکومتی اہلکاروں کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں جمع تھی۔
شرما اولی نے آج دارالحکومت کھٹمنڈو میں منہدم ہو جانے والے تاریخی دھرارا ٹاور کی باقیات پر پھولوں کا گلدستہ رکھا اور ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں صرف اسی ٹاور کے انہدام کے باعث 132 افراد مارے گئے تھے۔ مجموعی طور پر اس قدرتی آفت کے نتیجے میں نو ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس کے اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے نے تقریبا چار ملین شہریوں کو بے گھر بھی کر دیا تھا، جن میں سے ایک بڑی تعداد آج بھی عارضی پناہ گاہوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ٹریکنگ گائیڈ گووند تِملسینہ نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تین برس قبل جب ان کا گھر تباہ ہو گیا تھا، تب سے ان کی زندگی انجماد کا شکار ہے۔
گووند کے مطابق وہ ابھی تک اپنا گھر نہیں بنا سکے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے متاثرین کو امدادی رقوم فراہم کرنے کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امداد کے بغیر وہ دوبارہ اپنا گھر نہیں بنا سکتے، ’’حکومتی ضوابط انتہائی پیچیدہ ہیں۔ ہم خوفزدہ ہیں کہ اگر ہم نے خود ہی گھر کی تعمیر شروع کر دی تو ہمیں امدادی رقم نہیں ملے گی۔‘‘ وہ آج کل اپنی والدہ، اہلیہ اور تین بچوں کے ہمراہ ایک کمرے والے کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر ہیں۔
اس قدرتی آفت کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں نے نیپال کو 4.1 بلین ڈالر کی رقوم مہیا کرنے کا عہد کیا تھا لیکن ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں واقع اس ملک کے سیاستدانوں میں شروع ہونے والی سیاسی رسہ کشی اور فنڈز کی تقسیم پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین کو مناسب امداد موصول نہیں ہو سکی ہے۔
اسی مناسبت سے کھٹمنڈو میں جب اتوار کو یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا تو سیاہ لباس میں ملبوس بیس زلزلہ متاثرین نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ انہوں نے اس تباہی کے بعد حکومتی نااہلی اور سست ردعمل کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
نیپال میں شدید زلزلہ، سینکڑوں ہلاکتیں
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، ’نیپال میں آنے والا یہ زلزلہ انتہائی شدید نوعیت کا تھا۔ ماضی میں آنے والے زلزلوں کی نسبت اس سے نقصان یقینا زیادہ ہوا ہو گا۔ شدید جانی نقصان کے خدشات بھی موجود ہیں۔‘
تصویر: imago/Xinhua
نیپال میں 80 برسوں کا شدید ترین زلزلہ
اس زلزلے کے نتیجے میں بھارت میں کم از کم 34، تبت میں 12 جب کہ بنگلہ دیش میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ اس زلزلے کے جھٹکے پاکستانی شہر لاہور تک میں محسوس کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے کے روز آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 11 سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ جس شدت کا یہ زلزلہ تھا اور اس کے نتیجے میں جس قدر بدترین تباہی ہوئی ہے، اس سے واضح ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
زلزلے کا مرکز
امریکی ارضیاتی سروے نے ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت ابتدا میں 7.7 بتائی تھی، تاہم بعد میں اسے بڑھا کر 7.9 بتایا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ زلزلہ کھٹمنڈو سے مغرب کی طرف واقع شہر پوکھارا سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر زمین میں دو کلومیٹر کی گہرائی میں آیا۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر برفانی طوفان
زلزلے کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی برفانی طوفان پیدا ہو گیا، جس کے نتیجے میں کوہ پیماؤں کے بیس کیمپ کو نقصان پہنچا اور متعدد کوہ پیما ہلاک ہوئے۔ اس بیس کیمپ سے بھی تیس زخمی کوہ پیماؤں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Phurba Tenjing Sherpa
قدیم ٹاور بھی زمین بوس
نیپالی میڈیا کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں کھٹمنڈو شہر میں واقع 19ویں صدی کا ایک تاریخی ٹاور بھی منہدم ہو گیا۔ دھرارا ٹاور سن 1832ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور دس برس قبل اسے سیاحوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس ٹاور کی آٹھویں منزل میں ایک بالکونی سے شہر کو دیکھنے ہزاروں شائقین آتے تھے۔ اسے بھیم سین ٹاور بھی کہا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/R. Harding World Imagery
جانی نقصان ایک لاکھ تک ہو سکتا ہے
امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے کو ’ریڈالرٹ‘ قرار دیتے ہوئے اس سے ہونے والی جانی نقصان کو ’ایک ہزار تا ایک لاکھ‘ جب کہ انفراسٹکچر کو ہونے والے نقصان کو ’سو ملین تا دس بلین‘ میں رکھا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق اس زلزلے کو 105 ملین افراد نے محسوس کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
شدید تباہی
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے مغرب میں آنے والے اس شدید زلزلے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور درجنوں عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق زلزلے کے باعث عمارتیں گرنے کی وجہ سے پورا شہر گرد کی لپیٹ میں آ گیا۔
تصویر: P. Mathema/AFP/Getty Images
زخمیوں کی تعداد غیر واضح
مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق کھٹمنڈو کے مرکزی ہسپتال میں متعدد ایسے زخمیوں کو لایا گیا، جن کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹے ہوئے ہیں۔ فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ طاقت ور زلزلے کے نتیجے میں مجموعی طور پر کتنے افراد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
زیادہ تر شہری سڑکوں پر
کھٹمنڈو کے آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ ذرائع کے مطابق اس قدرتی آفت کے بعد زیادہ تر شہری اپنے گھروں سے باہر ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ والے پہاڑی خطے کو بھی زلزلے نے متاثر کیا ہے اور وہاں بھی انسانی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Shrestha
کھٹمنڈو کے بیشر علاقے متاثر
نیپالی دارالحکومت کی گنجان آبادی، وہاں ہونے والی تباہی، عمارات کے انہدام اور تنگ گلیوں کی وجہ سے متاثرہ جگہوں تک رسائی کے مسائل کے تناظر میں خدشہ ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد کہیں زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
تباہی کی تصویری داستان
انٹرنیٹ پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، کئی عمارات کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جب کہ لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ شدید زلزلے کے جھٹکے شمالی بھارت میں نئی دہلی تک محسوس کیے گئے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Shrestha
دربار اسکوائر کو پہچاننا مشکل
کھٹمنڈو شہر کے قدیمی علاقے ’دربار اسکوائر‘ کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق زلزلے سے دربار اسکوائر کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ فی الحال اسے پہچاننا بھی مشکل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Shrestha
1934ء کا زلزلہ
سن 1934ء میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں آباد اس ملک میں آنے والے 8.3 کی شدت کے زلزلے میں ساڑھے آٹھ ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: imago/Xinhua
13 تصاویر1 | 13
تین بچوں کی ماں نائپت نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اگر مدد نہیں ملتی تو میں زندگی بھر اپنے گھر کی تعمیر نہیں کر سکوں گی۔‘‘ یہ خاتون بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ نائپت کے بقول اسے اب تک امداد کی مد میں صرف ڈیڑھ سو ڈالر ملے ہیں۔
اس زلزلے کی وجہ سے نیپال بھر میں بارہ سو طبی مراکز کو نقصان پہنچا تھا جبکہ آٹھ ہزار سے زائد اسکول تباہ ہو گئے تھے یا غیر محفوظ قرار دے دیے گئے تھے۔ اس لیے نیپال میں اس وقت نہ صرف بنیادی طبی سہولیات کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں بلکہ ساتھ ہی بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی حصول تعلیم سے محروم ہو چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق طویل انتظار کے بعد ایک لاکھ دس ہزار گھرانے غیر محفوظ مکانات میں منتقل ہو چکے ہیں، جو کسی نئے زلزلے کی نتیجے میں بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کنبوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اکتیس ہزار متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنے مکانات کی تعمیر کا کام شروع کر دیا ہے۔