چھ ماہ کے دوران یہ دوسرا موقعہ ہے جب ملکی پارلیمان تحلیل کر دی گئی ہے۔ نیا سیاسی بحران ایسے وقت پیدا ہوا ہے جب نیپال پہلے ہی کووڈ بحران کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
اشتہار
نیپال کی صدر بدیا دیوی بھنڈاری نے ہفتے کے روز ملکی پارلیمان تحلیل کر دی اور نومبر میں نئے انتخابات کا اعلان کیا۔ بھنڈاری کے دفتر نے کہا کہ یہ فیصلہ کارگذار وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی سربراہی والی کابینہ کی سفارش پر کیا گیا ہے۔
بھنڈاری نے اولی اور اپوزیشن نیپالی کانگریس پارٹی کے رہنما شیر بہادر دیوبا، دونوں کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے پیش کردہ دعوؤں کو مسترد کر دیا۔
دونوں رہنما مقررہ وقت تک نئی حکومت تشکیل دینے کے لیے ارکان پارلیمان کی ضروری حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب ملکی پارلیمان تحلیل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2020 میں اولی نے حکمراں نیپالی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اختلافات کے بعد پارلیمان تحلیل کردی تھی۔
سپریم کورٹ نے تاہم فروری میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اولی کی طرف سے پارلیمان کا اس طرح تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے اور عدالت نے پارلیمان بحال کردی تھی۔
غالبا ً پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی پارلیمان کو تحلیل کیے جانے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
اشتہار
نیپال میں سیاسی بحران
پارلیمان کو تحلیل کرنے کا یہ معاملہ نیپال میں ایک عرصے سے جاری سیاسی بحران کی تازہ ترین کڑی ہے۔
اولی نیپال کمیونسٹ پارٹی کی حمایت سے سن 2017 میں وزیر اعظم بنے تھے۔ لیکن پارٹی میں پھوٹ پڑ جانے کی وجہ سے وہ حمایت سے محروم ہو گئے۔
انہوں نے اقلیتی حکومت کے سربراہ کے طور پر اس ماہ ملک کا اقتدار سنبھالا تھا لیکن وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے انہیں ایوان کے کم از کم نصف ارکان کی حمایت درکار تھی۔
نیپال کمیونسٹ پارٹی کے ایک گروپ نے انہیں حمایت دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد وہ مئی کے اوائل میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے۔
یہ سیاسی بحران ایسے وقت پیدا ہوا ہے جب کورونا وائرس کی وبا سے مناسب طور پر نمٹنے میں ناکام رہنے کے لیے اولی حکومت پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اولی کووڈ کی وبا پر توجہ دینے کے بجائے اپنے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی ریلیاں اورسیاسی میٹنگیں کرنے میں مصروف ہیں۔
دسمبر میں پارلیمنٹ تحلیل ہوجانے کے بعد سے ہی حکمراں اور اپوزیشن جماعتیں اب تک سینکڑوں سیاسی ریلیاں منعقد کرچکی ہیں۔
ان میں سے اب تک کی سب سے بڑی ریلی وزیر اعظم اولی کی تھی جس سے انہوں نے خطاب کیا تھا۔
امن کے پیامبر گوتَم بُدھا
بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کوامن کا پیامبر کہا جاتا ہے۔ لیکن دو پڑوسی ممالک بھارت اور نیپال کے درمیان اس بات پر تکرار ہوگئی ہے کہ گوتم بدھاکا تعلق دونوں میں سے کس ملک سے ہے اوران کی وراثت کا اصل حقدار کون ہے؟
تصویر: J. Mohsin
گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت؟‘
نیپال اور بھارت میں تنازع اس وقت پیدا ہوگیا جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت‘قرار دے دیا۔ لیکن نیپالی وزیر اعظم نے انہیں یاد دلایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹھمنڈو کے دورے کے دوران تسلیم کیا تھا”نیپال وہ سرزمین ہے جہاں دنیا میں امن کے پیامبر گوتم بدھا پیدا ہوئے تھے۔“
تصویر: J. Mohsin
بودھ گیا اور لمبنی میں سے کون اہم؟
تاریخی شواہد کے مطابق بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کی پیدائش نیپال کے لمبنی شہر میں ایک راج گھرانے میں ہوئی۔ لیکن وہ دنیاکی بے ثباتی سے مایوس ہو کراپنا گھر بار چھوڑ کر خدا کے عرفان کی تلاش میں نکل پڑے اورسفر کرتے ہوئے بھارتی صوبے بہار کے ایک غیر آباد علاقے بودھ گیا پہنچ گئے۔ جہاں ان کی یاد میں یہ مہابودھی مندر قائم ہے۔
تصویر: J. Mohsin
’نروان حاصل ہوگیا‘
کہا جاتا ہے کہ اسی ’بودھی درخت‘کے نیچے انہوں نے چھ برس تک مراقبہ کیا اور سخت مجاہدے کے بعدان پریہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے۔اس برگد کے درخت کوبودھ مت میں انتہائی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ چند برس قبل کسی ’عقیدت مند‘ نے اس کی شاخ توڑ لی تھی جس کے بعد حفاظت کے لیے اس کے گرد لوہے کا حصار بنادیا گیا ہے۔
مقدس نشان
بودھ گیا صوبہ بہار کے تاریخی شہر گیا سے 15کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں اور نشانیاں موجود ہیں۔ گوتم بدھا نے اپنی تعلیمات کے فرو غ کے لیے 44 برس تک پورے بھارت کے دورے کیے۔ 80 برس کی عمر میں 384ق م میں ان کی موت ہوئی۔ مہابودھی مندر میں واقع اس نشانی کو گوتم بدھا کے پاوں کا نشان بتایا جاتا ہے۔
تصویر: J. Mohsin
ہرشخص تارک دنیا نہیں ہوسکتا
بودھ مت کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم بدھا نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔
تصویر: J. Mohsin
ذا ت پات کا چکر
بودھ مت بھی اونچ نیچ اور ذات پات سے محفو ظ نہیں ہے۔ یہ اختلافات گوتم بدھا کی زندگی میں اسی وقت پیدا ہوگئے تھے جب انہوں نے ایک بھنگی کو اپنی جماعت میں داخل کرلیا تھا۔ذات پات کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل باعث نزاع بن گئے جس کی وجہ سے گوتم بدھ کی موت کے بعد بدھ مت کے ماننے والے مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کے ماننے والے 535 ملین
بودھ مت کے ماننے والے آج دنیاکے بیشتر ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ دلائی لامہ ان کے اعلی ترین مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بودھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 535 ملین کے قریب ہے۔ بھارت میں ان کی تعداد 92 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا زوال
گوتم بدھا کی وفات کے بعد بودھ مت پانچ سو سال تک مسلسل ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ بھارت کے علاوہ افغانستان، چین، برمااور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ اور ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ بھارت میں اس کے پیروؤں کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی۔ بھارت میں آئینی طور پر تسلیم شدہ چھ مذہبی اقلیتوں میں بودھ بھی شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھوں کا قتل عام
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بودھ مت کے زوال کی بنیادی وجہ برہمنوں کی مخالفت تھی کیوں کہ وہ اسے ہندو دھرم کی ترقی کے خلاف سمجھتے تھے لہذا پہلے تو بودھ مت کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی پھر بودھوں کے خلاف مہم چلاکر بڑے بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔
تصویر: J. Mohsin
چار بنیادی باتیں
بودھ مت میں چار بنیادی باتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ اول زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔ دوئم دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔سوئم خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے اور چہارم خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔ اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم، راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی وجد شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا احیاء
بودھ مت کو آج کل اہنسا اور امن کے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں تیز ہورہی ہیں۔ یوں تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں بودھ مت کے ماننے والے ہیں تاہم سب سے بڑی تعداد چین میں ہے۔ تھائی لینڈ، جاپان، میانمار، سری لنکا، ویت نام، کمبوڈیا، جنوبی کوریا،بھارت اور ملائشیا میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ متن: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: J. Mohsin
11 تصاویر1 | 11
خطے میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے لیکن اس کے باوجود اپریل کے آخری ہفتے تک اولی کٹھمنڈو کے مشہور دھراہرا ٹاور کی تزئین و آرائش میں اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ مصروف رہے۔
دریں اثنا بیشتر سرکاری ہسپتالوں نے نوٹس جاری کر کے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں نازک حالت میں آنے والے نئے مریضوں کی وجہ سے ہسپتال میں بیڈ خالی نہیں بچے اور وہ آکسیجن، بستروں، آئی سی یو اور وینٹی لیٹروں کی قلت کی وجہ سے نئے مریضوں کو داخل نہیں کر سکتے ہیں۔
نیپال میں کووڈ انیس کے ہر روز اوسطا ً آٹھ ہزار نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔