1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ، بھارت کے لیے نیا درد سر

جاوید اختر، نئی دہلی
18 مئی 2020

بھارت کا اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ ایک عرصے سے جاری سرحدی تنازعات کی فہرست میں نیپال کے شامل ہوجانے سے نئی دہلی کی سردردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

Bildergalerie Nepal Erdbeben Mount Everest Bergspitze ARCHIV
تصویر: Getty Images/P. Bronstein

بھارت کے حالیہ اقدام سے نیپالی عوام کی ناراضی دور کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو ملکی پارلیمان میں یہ وضاحت دینی پڑی کہ 'نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا۔‘

نیپال نے گزشتہ ہفتے بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضی کا اظہار کیا جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آٹھ مئی کو حقیقی کنٹرول لائن پر واقع لیپو لیکھ کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ۔ کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔

لیپو لیکھ وہ جگہ ہے جہاں بھارت، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ہندو اساطیر کے مطابق کیلاش مانسرور بھگوان شیوا کی جائے قیام ہے اور ہندو عقیدت مند ہر سال وہاں یاترا کے لیے جاتے ہیں۔ اس سڑک کی تعمیر سے بھارتی یاتریوں کی آمد و رفت میں کافی سہولت ہوگی۔ لیکن سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد نیپالی وزیر اعظم کو کل جماعتی اجلاس طلب کرکے وضاحت کرنی پڑی۔

نیپال کی وزارت خارجہ نے بھی کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کر کے سخت احتجاج کیا اور کہا ”بھارت نیپال کے علاقے کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔"

مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نیپال اور بھارت کے درمیان مسلسل دوری دکھائی دے رہی ہے۔تصویر: picture alliance/AA/I. Khan


دوسری طرف بھارت نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کسی بھی نیپالی علاقے میں مداخلت نہیں کی ہے اور یہ سڑک کیلاش مانسرور کے روایتی یاترا کے روٹ پر ہی تعمیر کی گئی ہے۔

ابھی یہ برہمی کم نہیں ہوئی تھی کہ 15مئی کو بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے یہ بیان دیا کہ بھارت کی طرف سے مذکورہ سڑک کی تعمیر میں انہیں کچھ متنازع نہیں دکھائی دیتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ'اس بات کا کافی امکان ہے کہ نیپال ایسا کسی کے اشارے پر کررہا ہو۔‘ 

جنرل نروانے نے گو کہ کسی کا نام نہیں لیا تاہم اس کا مطلب یہ اخذ کیا گیا کہ وہ نیپال پر چین کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ جنرل نروانے کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب بھارت اور چین کی فوجیں لداخ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئی تھیں اور دونوں افواج کے درمیان ہاتھا پائی کی خبریں بھی موصول ہوئی تھیں۔

نیپال اور بھارت کے درمیان نہایت قریبی اور تاریخی رشتے رہے ہیں لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں کے درمیان مسلسل دوری دکھائی دے رہی ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سرحدی تنازع کو بھارت کے سامنے کئی مرتبہ اٹھایا ہے۔  گزشتہ برس نومبر میں بھی بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد شائع کیے جانے والے نقشے پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھا۔ اس نقشے میں کالاپانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے جب کہ نیپال کا دعوی ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے جو بھارت، نیپال اور چین کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ نیپال کی حکومت نے بھارت کے اقدام کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کرے گا۔

اتراکھنڈ۔ کیلاش مانسرور سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیاتصویر: Reuters/N. Chitrakar


کالاپانی بیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور 1962کے بھارت چین جنگ کے بعد بھارت نے یہاں اپنی فوجیں تعینات کردی تھیں۔ اتنی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ کافی فوجی اہمیت کا حامل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال اور بھارت کے درمیان تعلقات میں تلخی سن 2015  میں اس وقت اجاگر ہوکر سامنے آئی جب نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشی برادری نے سڑک جام کردی تھی۔  اس کی وجہ سے نیپال کو کافی اقتصادی پریشانی اٹھانی پڑی۔ نیپال نے بھارت پر مدھیشیوں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

یوں تو نیپال اوربھارت کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور لاکھوں نیپالی بھارت میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وزیر اعظم  کے پی اولی اور ان کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔ دوسری طرف نیپال میں بھارت مخالف نعروں کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔ بہر حال بھارت کا کہنا ہے کہ وہ نیپال کے ساتھ تمام معاملات پر خارجہ سکریٹری کی سطح پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں