نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ، بھارت کے لیے نیا درد سر
جاوید اختر، نئی دہلی
18 مئی 2020
بھارت کا اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ ایک عرصے سے جاری سرحدی تنازعات کی فہرست میں نیپال کے شامل ہوجانے سے نئی دہلی کی سردردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اشتہار
بھارت کے حالیہ اقدام سے نیپالی عوام کی ناراضی دور کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو ملکی پارلیمان میں یہ وضاحت دینی پڑی کہ 'نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا۔‘
نیپال نے گزشتہ ہفتے بھارت کے خلاف اس وقت سخت ناراضی کا اظہار کیا جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آٹھ مئی کو حقیقی کنٹرول لائن پر واقع لیپو لیکھ کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ۔ کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔
لیپو لیکھ وہ جگہ ہے جہاں بھارت، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ہندو اساطیر کے مطابق کیلاش مانسرور بھگوان شیوا کی جائے قیام ہے اور ہندو عقیدت مند ہر سال وہاں یاترا کے لیے جاتے ہیں۔ اس سڑک کی تعمیر سے بھارتی یاتریوں کی آمد و رفت میں کافی سہولت ہوگی۔ لیکن سڑک کے افتتاح کے بعد نیپال میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بعد نیپالی وزیر اعظم کو کل جماعتی اجلاس طلب کرکے وضاحت کرنی پڑی۔
نیپال کی وزارت خارجہ نے بھی کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کر کے سخت احتجاج کیا اور کہا ”بھارت نیپال کے علاقے کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔"
دوسری طرف بھارت نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کسی بھی نیپالی علاقے میں مداخلت نہیں کی ہے اور یہ سڑک کیلاش مانسرور کے روایتی یاترا کے روٹ پر ہی تعمیر کی گئی ہے۔
ابھی یہ برہمی کم نہیں ہوئی تھی کہ 15مئی کو بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے یہ بیان دیا کہ بھارت کی طرف سے مذکورہ سڑک کی تعمیر میں انہیں کچھ متنازع نہیں دکھائی دیتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ'اس بات کا کافی امکان ہے کہ نیپال ایسا کسی کے اشارے پر کررہا ہو۔‘
جنرل نروانے نے گو کہ کسی کا نام نہیں لیا تاہم اس کا مطلب یہ اخذ کیا گیا کہ وہ نیپال پر چین کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ جنرل نروانے کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب بھارت اور چین کی فوجیں لداخ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئی تھیں اور دونوں افواج کے درمیان ہاتھا پائی کی خبریں بھی موصول ہوئی تھیں۔
نیپال اور بھارت کے درمیان نہایت قریبی اور تاریخی رشتے رہے ہیں لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں کے درمیان مسلسل دوری دکھائی دے رہی ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سرحدی تنازع کو بھارت کے سامنے کئی مرتبہ اٹھایا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں بھی بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد شائع کیے جانے والے نقشے پر نیپال نے سخت اعتراض کیا تھا۔ اس نقشے میں کالاپانی نامی علاقے کو بھارتی ریاست اترا کھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے جب کہ نیپال کا دعوی ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے جو بھارت، نیپال اور چین کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ نیپال کی حکومت نے بھارت کے اقدام کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کرے گا۔
کالاپانی بیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور 1962کے بھارت چین جنگ کے بعد بھارت نے یہاں اپنی فوجیں تعینات کردی تھیں۔ اتنی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ کافی فوجی اہمیت کا حامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال اور بھارت کے درمیان تعلقات میں تلخی سن 2015 میں اس وقت اجاگر ہوکر سامنے آئی جب نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشی برادری نے سڑک جام کردی تھی۔ اس کی وجہ سے نیپال کو کافی اقتصادی پریشانی اٹھانی پڑی۔ نیپال نے بھارت پر مدھیشیوں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
یوں تو نیپال اوربھارت کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور لاکھوں نیپالی بھارت میں ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں لیکن حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے پی اولی اور ان کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔ دوسری طرف نیپال میں بھارت مخالف نعروں کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔ بہر حال بھارت کا کہنا ہے کہ وہ نیپال کے ساتھ تمام معاملات پر خارجہ سکریٹری کی سطح پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔