’نیکی کر دریا میں ڈال‘ مہاجرین نے مسیحا کو ہی اغوا کر لیا
28 مارچ 2019
مالٹا کی بحریہ نے کہا ہے کہ مہاجرین کی جانب سے اغوا کیے جانے والے مال بردار بحری جہاز کا انتظام اب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جہاز لیبیا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں ہی اپنا رخ موڑ لیا۔
اشتہار
خبر رساں اداروں کے مطابق اس سامان بردار بحری جہاز نے منگل کے روز بحیرہ روم سے تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا تھا، جس کے بعد وہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ تاہم بندرگاہ سے چھ ناٹیکل میل دور سے اس نے اپنا راستہ بدل لیا اور مالٹا کی جانب سفر شروع کر دیا۔
مالٹا کی بحریہ کے بیان میں بتایا گیا کہ مالٹا کی فوج کے خصوصی دستے ایک کارروائی کے دوران بحری جہاز میں داخل ہوئے اور اس کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس جہاز پر اندازاً ایک سو آٹھ مہاجرین سوار ہیں، ان میں ستتر مرد، اکتیس خواتین اور چند بچے بھی شامل ہیں۔
یہ جہاز مالٹا کی بندرگاہ پر پہنچ گیا ہے، جہاں اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تاکہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی جا سکیں۔مالٹا کے حکام نے مزید بتایا کہ وہ اس حوالے سے باخبر ہیں کہ بحری جہاز کو اغوا کیا گیا تھا۔
ایلہی بلو نامی یہ سامان بردار جہاز بحرالکاہل پر واقع چھوٹی سے جزیرہ ریاست پالاؤ کے پرچم کے ساتھ بحیرہ روم میں سفر کر رہا تھا۔ اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالووینی نے بتایا کہ انہیں کسی کشتی کا جہاز کا ملبہ نہیں ملا ہے، ’’یہ لوگ بحری قزاق ہیں‘‘۔ ان کے بقول اس جہاز کو اطالوی پانیوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
10 تصاویر1 | 10
حالیہ برسوں کے دوران اٹلی میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد روم حکومت سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ روم حکام کی جانب سے بحیرہ روم میں مہاجرین کو بچانے والی زیادہ تر کشتیوں اور جہازوں کو لیبیا واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
بدھ کو یورپی یونین کے’صوفیا‘ نامی مشن کے اختتام کے ساتھ ہی بحیرہ روم میں اُن جہازوں کی گشت بھی بند ہو گئی ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچایا ہے۔ ان میں زیادہ تر کو اٹلی پہنچایا جاتا تھا۔
مہاجرین کی جان بچانے والا جرمن کپتان عدالتی مقدمے کی زد میں