1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ن لیگ نے عمران خان کی ’مشروط‘ مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی

3 دسمبر 2022

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کے لیے عمران خان کی ’دھمکی آمیز‘ مذاکرات کی پیش کش قبول نہیں۔ تاہم ن لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اتحادیوں کی مشاورت سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

Pakistan Karatschi Premierminister Mian Shahbaz
تصویر: CM House

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نےآئندہ عام انتخابات کی تاریخ پر عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی مشروط پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ ہفتے کے روز لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ اتحادیوں سے مشاورت کے ساتھ کیا جائے گا۔  انہوں نے کہا، ''مذاکرات سے مسائل کا حل نکلتا لیکن ہر بات کرنے کا کوئی سلیقہ ہوتا ہے۔ اگر عمران خان سنجیدہ ہیں تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ دھمکیاں، بہتان اور مذاکرات اکٹھے نہیں چلتے۔‘‘

عمران خان نے حکومت کو الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ اگر وہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان نہیں کرتی تو پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دے گیتصویر: Talha Mehmood/PTI Media

اس سے قبل رانا ثنا ء اللہ کا یہ کہنا تھا  کہ عمران خان کی طرف سے قبل ازوقت انتخابات کے معاملے پر بات چیت  سے متعلق    وزیر اعظم شہباز شریف ایک یا دو دن میں اتحادی رہنماؤں سے مذاکرات میں اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔  عمران خان نے جمعے کے روز پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں  وفاقی حکومت کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کرے ورنہ تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کر دےگی۔

قبل از وقت عام انتخابات کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے اسلام آباد میں مقیم سیاسی امور کے ایک تجزیہ کار طاہر ملک کا کہنا تھا کہ اگر یہ مذاکرات ہوتے ہیں تو ان کی کامیابی کا امکان ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' دسمبر کے بعد ویسے ہی انتخابات کا سال شروع ہوجائے گا۔ تو اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور حکومت چند ماہ اوپر نیچے کر کہ انتخابات کے لیے کسی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں تو میرے خیال میں یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

عمران خان کی طرف اس متعلق حکومت کو الٹی میٹم دیےجانے کے بارے میں طاہر ملک کا کہنا تھا کہ عمران خان پہلے کی نسبت کافی لچک دار رویے کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ انہوں نےکہا ،'' عمران خان غیر ملکی سازش کے بیانیے سے امریکہ کا کردار ختم کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سابق آرمی چیف کے ساتھ  بہتر تعلقات کا حوالہ بھی دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے لانگ مارچ بھی اسلام آباد کے بجائے پنڈی تک محدود رکھا اور پھر وہیں سے واپس بھی پلٹ گئے تو یہ ساری چیزیں ایک لچک کا عندیہ دیتی ہیں۔‘‘

اس تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ عمران خان بدلتے ہوئے زمینی حقائق سے آگا ہ ہیں اور ان کے نئے مطالبات بھی دراصل یہ دیکھنے کے لیے ہیں کہ مقتدر حلقوں کی نئی قیادت کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی خبروں کی شہہ سرخیوں میں ہیں تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

فوج کے غیر سیاسی کردار پر ''شبہات‘‘

 وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے ہے کہ مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق بیان نے فوج کے بطور ادارہسیاست سے الگ رہنے کے فیصلے پر''شبہات‘‘ کو جنم دیا ہے۔

مونس الہی نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو جنرل باجوہ نے انہیں عمران خان کا ساتھ دینے کا کہا تھا۔ مونس الہی کے اس بیان کو اس لیے بھی اہمیت دی جا رہی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل یعنی مارچ میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ملکی سیاست سے الگ رہنے کا عندیہ دیا تھا۔

ہفتے کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مونس الہی کو یہ بیان دینے کی کیا ضرورت تھی، ''اس معاملے میں شفافیت ہونی چاہیے۔ ہمیں اور قوم کو فوج کے ادارے اور قیادت پر مکمل بھروسا ہے۔‘‘

جنرل عاصم منیر نے چند روز قبل ہی بری فوج کی سربراہی سنبھالی ہےتصویر: Inter-Services Public Relation Department/AP Photo/AP Photo/picture alliance

وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان کو ایک طرح سے حکومتی رد عمل بھی سمجھا جا رہا ہے۔  تجزیہ کار طاہر نعیم ملک کا کہنا ہے کہنئے آرمی چیف کی تقرری حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت کی رضامندی سے ہوئی ہے لیکن وزیر داخلہ کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید فوج کی جانب سے اس بات کا اعادہ چاہتے ہیں کہ وہ  سیاست میں عدم مداخلت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے گی۔  ڈی ڈبلیو سےگفتگو کرتے ہوئے طاہر ملک کا کہنا تھا،'' ن لیگ یہ چاہتی لے کہ جس طرح جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل کے چند مہینوں میں فوج کے بطور ادارہ اور آرمی چیف کے بطور عہدیدار غیر سیاسی ہونے پر زور دیتے تھے اسی طرح نئی فوجی قیادت بھی ان کی لائن پر چلے۔‘‘

طاہر ملک کے بقول پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سول اور ملٹری تعلقات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کی فضا کم ہی دیکھنے میں آئی ہے، '' تو یہ جو نئی صورتحال ہے یہ بھی پہلے سے اس لیے مخلتف نہیں کہ ابھی دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد میں وقت درکار ہو گا۔

ش ر ⁄ ع ت

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں