وائمار، فلسفے اور تاریخ کا سنگم
25 اپریل 2013عظیم شاعر اور ادیب یوہان وولفگانگ گوئتھے ایک طویل عرصے تک یہاں مقیم رہے۔ 1782ء میں وہ یہاں آئے اور اپنی معروف شاعری اور تحقیقی مقالوں سے جرمنی کی تاریخ کے افق پر ایک روشن ستارے کے مانند چمکے۔ نامور شاعر اور فلسفی فریڈرک شِلر تقریبا چھ سال یہاں مقیم رہے اور اپنی ادبی زندگی کی مشہور تصانیف یہی مرتب کیں۔
1969ء میں مشہور نغمہ گَر فرانز لزٹ جب جرمنی کے دورے پر تشریف لائےتو وہ بھی یہاں کئی ماہ مقیم رہے اور کئی مشہور نغمے ترتیب دئے۔ اس کے علاوہ معروف فلسفی فریڈرک نیٹشے بھی کافی عرصہ یہاں مقیم رہے۔ فریڈرک نے انیسویں صدی کے آخر میں فلسفے میں انقلابی نظریات پیش کئے۔
شاعروں سے سیاستدانوں تک
وائمار کو جرمنی کی پہلی جمہوری ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بیسویں صدی میں یہ شہر غیر معمولی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ 1919ء میں شہر کے قومی تھیٹر ہال میں آئینی کنونشن کا انعقاد کیاگیا لیکن اس کے صرف بیس سال بعد اڈولف ہٹلر کی قیادت میں نیشنل سوشلسٹوں نے یہاں تاریخ کا سیاہ ترین باب تحریر کیا اور شہر کے مضافات میں قیدیوں کے لیے ’بوخن والڈ نامی نازی کیمپ قائم کیا۔ یہاں کئے گئے ظلم اور بربریت کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔
صوبے تھیورنگیا کا سیاحتی مرکز
جب گوئتھے اور شِلر یہاں مقیم تھے تو اس زمانے میں یہاں کی آبادی تقریباﹰچھ ہزار تھی۔ اس نبست سے معروف ادیب یوہان گوٹفریڈ ہیرڈر نے اس شہر کو گاؤں اور شہر کے درمیان والے علاقے سے تشبیح دی۔ آج صوبے تھیورنگیا کے دل میں واقع اس شہر کی آبادی تقریبا چونسٹھ ہزار ہے اور یہاں آنے والے سیاح بھی اسے کسی دیہات سے تشبیح دیتے ہیں۔
اس شہر کو 1999ء کا یورپ کا ’ثقافتی مرکز‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس اعزاز نے اس شہر کے قدیم اور جدید فنون اور کلاسیکی ورثےکو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔
فن اور ثقافت
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہمسایہ شہر یینا، یونیورسٹی کے شہر کے طور پر جانا جاتا تھا جبکہ وائمار فن وثقافت کا مرکز تھا۔1860ء میں یہاں ایک آرٹ سکول قائم کیا گیا جس میں 1907ء میں اپلائیڈ آرٹس کا شعبہ کھولا گیا جو بعد ازاں ’باؤ ہاؤس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ وائمار کی مرکزی یونیورسٹی بھی اسی نام سے موسوم کی گئی۔