وائٹ ہاؤس پریس اسٹاف میں تمام سینیئر عہدوں پر خواتین
30 نومبر 2020
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کی پریس ٹیم کے سینیئر عہدوں پر اپنی انتخابی مہم کے ساتھیوں کو رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار کمیونیکیشن اسٹاف کے تمام سینیئر عہدوں پر خواتین ہوں گی۔
اشتہار
امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اتوار 29 نومبر کو وائٹ ہاؤس کے پریس اسٹاف کے تمام اعلی عہدوں پر خواتین کو نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب وائٹ ہاؤس میں کمیونیکیشن میڈیا کو سنبھالنے والی ٹیم کی تمام اعلی افسر خواتین ہوں گی۔ نئی انتظامیہ کی کمیونیکیشن ٹیم کی قیادت کے لیے اوباما انتظایہ کے بعض تجربہ کار ماہرہن کو بھی شامل کیا گيا ہے۔
جو بائیڈن نے کہا، "مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سینیئر کمیونیکیشن ٹیم پہلی بار پوری طرح سے خواتین پر مشتمل ہے۔ کمیونیکیشن کی یہ قابل اور تجربہ کار شخصیات اپنے کام کے تئیں مختلف نقطہ نظر کی حامل ہیں اور اس ملک کی تعمیر نو کے لیے ان کے عزائم بھی مشترک ہیں۔"
بائیڈن کی اقتدار کی منتقلی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس کے لیے جس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے وہ متنوع، تجربہ کار اور باصلاحیت خواتین پر مشتمل ہے اور اس سے آنے والے صدر کے اس عزم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ، ’’ایسی انتظامیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو امریکا کی طرح نظر آتی ہو اور کام کرنے والے خاندانوں کے لیے روز اول سے ہی نتیجہ خیز ثابت ہونے کے تیار بھی ہو،‘‘
تاریخ کی پہلی متنوع ترین ٹیم
امریکا میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کمیونیکیشن ٹیم کے تمام اعلی عہدوں پر خواتین کو نامزد کیا گیا ہو۔ ان سات خواتین میں سے چار کا تعلق سیاہ فام برادری سے ہے۔ اوباما کی انتظامیہ میں جینیفر پساکی وائٹ ہاؤس میں کمیونکیشن کی ڈائریکٹر ہوا کرتی تھیں اور جو بائیڈن نے انہیں پریس سیکرٹری کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کی ترجمان رہیں جینیفر پساکی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ’’یہ ٹیم بعض بہترین صلاحیت مندوں پر مشتمل ہے، اس میں آزمائی ہوئی تجربہ کار ماہر ابلاغیات شامل ہیں، جو سب کی سب خواتین ہیں۔ سب سے متنوع ٹیم جس میں سے چھ کم عمر بچوں کی مائیں ہیں۔‘‘
بائیڈن اور کملا ہیرس کی انتخابی مہم کی ترجمان کیٹ بیڈنگ فیلڈ کو وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے متعین کیا گيا ہے۔ جب بائیڈن نائب صدر تھے تب بھی ان کے ساتھ کیٹ اسی عہدے پر کام کر چکی ہیں۔
بائیڈن ٹیم کی سینیئر مشیر سیمون سینڈرز نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس کی چیف ترجمان کے طور پر کام کریں گی۔ بائیڈن کی سابق پریس سیکرٹری ایلزبتھ الیگزینڈر آئندہ امریکی خاتون اول جل بائیڈن کی کمیونیکیٹر ڈائریکٹر ہوں گی۔ اس کے علاوہ اس ٹیم میں کارین ژاں پرئیر اور ایشلی ایٹیئن کی بھی اعلی عہدے پر تقرری کی گئی ہے۔
کارین ژاں پرئیر وائٹ ہاؤس میں پرنسپل نائب پریس سیکرٹری کے طور پر کام کریں گی جبکہ ایشلی نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس کی کمیونیکٹر ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوں گی۔ بائیڈن ٹیم کی انتخابی مہم کی کمیونیکیٹر ڈائریکٹر پیلی ٹوبر کو وائٹ ہاؤس میں نائب کمیونیکیٹر ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر کیا گیا ہے۔ کابینہ کے ارکان کی سینیٹ سے منظوری لینا پڑتی ہے تا ہم ان تقرریوں کے لیے صدر کی ٹیم خود مجاز ہوتی ہے اور اس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ سے فرق
ٹرمپ کی انتظامیہ میں بھی پریس سیکرٹری اور پریس ڈائریکٹر سمیت کئی خواتین شامل ہیں لیکن بائیڈن کی ٹیم نے تنوع کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس میں پریس کو ماضی کی روایات کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پریس کے لیے لڑنے والا انداز اختیار کر رکھا تھا، جس میں پریس بریفنگ کے دوران اکثر میڈیا کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس بائیڈن کی میڈیا ٹیم پریس کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی پر امید ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔