ٹرمپ کی کورونا ٹاسک فورس کے تین اعلیٰ اہلکار بھی قرنطینہ میں
10 مئی 2020
امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کووڈ انیس کے وبائی مرض کے خلاف قائم کردہ وائٹ ہاؤس کورونا ٹاسک فورس کے تین اعلیٰ اہلکار بھی قرنطینہ میں چلے گئے ہیں جبکہ خود امریکی صدر کے بھی روزانہ کورونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
اشتہار
وائٹ ہاؤس سے اتوار دس مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق کورونا ٹاسک فورس کے تین انتہائی اعلیٰ ارکان اس لیے احتیاطی طور پر انفرادی قرنطینہ میں چلے گئے ہیں کہ ان کا امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کے عملے کے ایک ایسے رکن کے ساتھ رابطہ رہا تھا، جس کا بعد میں کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا تھا۔
ان تین بہت اہم شخصیات میں ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی بھی شامل ہیں، جو نہ صرف صدر ٹرمپ کی کورونا وائرس کے خلاف ٹاسک فورس کے ایک کلیدی رکن ہیں بلکہ وہ امریکا میں الرجی اور متعدی بیماریوں کے قومی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی کے علاوہ امریکا کے بیماریوں کی روک تھام اور تدارک کے مرکز یا سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ اور خوراک اور ادویات کے نگران ملکی ادارے ایف ڈی اے کے کمشنر اسٹیفن ہان بھی اس لیے قرنطینہ میں چلے گئے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ آیا وہ بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
وہ بھی ڈاکٹر فاؤچی کی طرح وائٹ ہاؤس کے عملے کے ایک ایسے سرکردہ رکن کے ساتھ رابطے میں رہے تھے، جس کا کورونا وائرس سے متاثر ہونا اب ثابت ہو چکا ہے۔ ریڈ فیلڈ اور ہان دونوں اگلے دو ہفتوں تک قرنطینہ میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں گے۔
ایشیا سے امریکا تک، ماسک کی دنیا
آغاز پر طبی ماہرین نے ماسک پہننے کو کورونا وائرس کے خلاف بے اثر قرار دیا تھا لیکن اب زیادہ سے زیادہ ممالک اسے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری سمجھ رہے ہیں۔ ایشیا سے شروع ہونے والے ماسک پہننے کے رجحان پر ایک نظر!
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
گلوز، فون، ماسک
جرمنی بھر میں ماسک کب لازمی قرار دیے جائیں گے؟ انہیں ایشیا میں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جرمنی کے روبرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے بھی ماسک پہننے کی تجویز دی ہے۔ یینا جرمنی کا وہ پہلا شہر ہے، جہاں عوامی مقامات اور مارکیٹوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
تصویر: Imago Images/Sven Simon/F. Hoermann
اپنی مدد آپ کے تحت
عالمی سطح پر ماسکس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں کئی لوگ ماسک خود بنانے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں۔ یوٹیوب اور ٹویٹر پر ایسی کئی ویڈیوز مل سکتی ہیں، جن میں ماسک خود بنانا سکھایا گیا ہے۔ جرمن ڈیزائنر کرسٹین بوخوو بھی آن لائن ماسک بنانا سیکھا رہی ہیں۔ وہ اپنے اسٹوڈیو میں ریڈ کراس اور فائر فائٹرز کے لیے بھی ماسک تیار کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
مسکراہٹ
جرمن شہر ہنوور کی آرٹسٹ منشا فریڈریش بھی کورونا وائرس کا مقابلہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ ماسک مسکراتے ہوئے چہروں اور معصوم جانوروں کی شکلوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ اس آرٹسٹ کے مطابق وہ نہیں چاہتیں کہ وائرس لوگوں کی خوش مزاجی پر اثر انداز ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
رنگین امتزاج
جمہوریہ چیک اور سلوواکیہ ایک قدم آگے ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہی مارچ کے وسط میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ سلوواکیہ کی خاتون صدر اور وزیراعظم بطور مثال خود ماسک پہن کر عوام کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد آسٹریا نے بھی دوران خریداری ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Svitok
چین میں بہار
چین میں کسی وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک پہن کر رکھنا روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے شروع میں ہی وہاں لوگوں نے ماسک پہننا شروع کر دیے تھے۔ وہاں اس وبا کے باوجود یہ جوڑا محبت کے شعلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور باقی دنیا سے بے خبر بہار کا رقص کر رہا ہے۔
تصویر: AFP
اسرائیل، سب برابر ہیں
اسرائیل میں بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پولیس اور فوج مل کر وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے کرفیو کو نافذ العمل بنا رہے ہیں۔ آرتھوڈکس یہودی بھی ان قوانین سے مبرا نہیں ہیں۔ یروشلم میں ایک پولیس اہلکار الٹرا آرتھوڈکس یہودی کو گھر جانے کی تلقین کر رہا ہے۔
تصویر: picture-lliance/dpa/I. Yefimovich
غزہ میں آرٹ
گنجان آباد غزہ پٹی میں لوگ ماسک کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ غزہ حکام نے تمام تقریبات منسوخ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ تیس مارچ کو اسرائیل کی سرحد کے قریب طے شدہ سالانہ احتجاجی مظاہرہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Wire/A. Hasaballah
ماکروں کے گمشدہ ماسک
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں حفاظتی سوٹ اور ماسک تیار کرنے والی ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی سازوسامان مہیا کرنے میں ناکامی پر حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بہت سے ڈاکٹروں نے مریض کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کا علاج کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Venance
8 تصاویر1 | 8
ڈاکٹر فاؤچی بھی اب چودہ روز تک اپنے گھر سے ہی کام کریں گے اور امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق فاؤچی اب صرف اسی صورت میں اپنے دفتر جا سکیں گے، جب ان کے دفتر میں اس وقت ان کے علاوہ اور کوئی فرد موجود نہ ہو۔
ڈاکٹر فاؤچی کے جمعے کے روز کیے گئے کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ منفی رہا تھا۔ تاہم ان کا یہ ٹیسٹ آئندہ بھی باقاعدگی سے کیا جاتا رہے گا۔
صدر ٹرمپ کے روزانہ کورونا ٹیسٹ
وائٹ ہاؤس میں رواں ہفتے کے دوران دو سرکردہ سرکاری اہلکاروں کے کورونا وائرس سے متاثر ہو جانے کی تصدیق کے بعد امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں کیے جانے والے صحت سے متعلق حفاظتی اقدامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔
جمعہ آٹھ مئی کو نائب صدر مائیک پینس کی پریس سیکرٹری کیٹی ملر میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہو گئی تھی۔ دریں اثناء صدر ٹرمپ کے روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ مختلف خبر رساں اداروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں 'پریشان نہیں‘ نہیں۔
م م / ع ح (روئٹرز، ڈی پی اے)
چمگادڑوں کے بارے میں حیران کن پوشیدہ حقائق
مہلک کورونا وائرس اور بیماریوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے چمگادڑوں کو انتہائی برا تصور کیا جانے لگا ہے۔ لیکن آموں اور کیلوں کی پولی نیشن سے لے کر مچھر کھانے تک، رات کی یہ دلچسپ مخلوق ماحولیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔
تصویر: picture-lliance/Zuma
صرف غاروں کا مکین نہیں
آسٹریلوی جھاڑیوں سے لے کر میکسیکو کے ساحلوں تک چمگادڑیں درختوں، پہاڑی غاروں میں اور چھتوں سے لٹکی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ زمین پر سب سے زیادہ پھیلا ہوا دودھ پلانے والا جانور ہے اور براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ واحد دودھ پلانے والا جانور ہے، جو پرواز بھی کرتا ہے۔
تصویر: Imago/Bluegreen Pictures
پتے پر رہائش
ہینڈوراس میں پائی جانے والی سفید چمگادڑیں ہیلیکونیا پودے کے پتے کو ایسے کاٹتی ہیں کہ وہ ٹینٹ کی شکل میں کٹ کر نیچے گرتا ہے۔ چمگادڑوں کی 14 سو اقسام میں سے صرف پانچ کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ چار سے پانچ سینٹی میٹر کی یہ چمگادڑیں صرف انجیر پر گزارہ کرتی ہیں۔
ایک طویل عرصے سے دنیا میں چمگادڑوں کو شیطانی مخلوق قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان کی صرف تین اقسام خون چوستی ہیں۔ یہ اپنے شکار کے بالوں کو ہٹاتی ہیں اور پھر تیز دانتوں سے خون تک راستہ تلاش کرتی ہیں۔ ان کا شکار عموماﹰ سوتے ہوئے جانور اور گھوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ انسانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بھی مشہور ہیں اور بیماریاں منتقل کر سکتی ہیں۔
چمگادڑوں کی انتہائی چھوٹی آنکھوں اور بڑے کانوں کی بھی اہم وجوہات ہیں۔ زیادہ تر چمگادڑوں کی نگاہ بہت کم ہوتی ہے اور اندھیرے میں کھانا تلاش کرنے کے لیے یہ ریڈار جیسے نظام ’سونار‘ پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے گلے میں ’ہائی پچ‘ آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے یہ پیمائش کا کام لیتی ہیں۔ یہ آواز منعکس ہو کر واپس آتی ہے تو یہ انتہائی درست انداز میں اردگرد کی چیزوں تک کا فاصلہ ناپتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
چمگادڑوں کے بغیر ایووکیڈو، آم یا کیلے ناممکن
پولی نیشن کی وجہ سے چمگادڑوں کی ناقابل یقین حد تک ماحولیاتی اہمیت ہے۔ پانچ سو سے زائد پودوں کے پھولوں کی پولی نیشن کا انحصار ان پر ہے۔ ان میں، ایووکیڈو، آم، کیلا اور کيوڑے کے خاندان کے درخت شامل ہیں۔ ایکواڈور اور میکسیکو میں پائی جانے والی لمبی زبان والی چمگادڑیں یہ کام انتہائی مہارت سے سرانجام دیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/All Canada Photos
بیماریوں کا گھر
چمگادڑیں قدرتی طور پر متعدد وائرس کی افزائش کے لیے بہترین ہیں۔ ان میں سارس، میرس، سارس کووِڈ ٹو اور ممکنہ طور پر ایبولا وائرس شامل ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں ان کا نایاب امیون سسٹم ان وائرس کو دیگر جانوروں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چمگادڑیں زیادہ جسمانی درجہ حرارت اور زیادہ اینٹی وائرل مادے کی وجہ سے ان مختلف اقسام کے وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔
تصویر: picture-lliance/Zuma
چمگادڑوں کی طویل عمریں
چمگادڑیں ایک سال میں ایک ہی بچہ پیدا کرتی ہیں لیکن ان کی عمریں دیگر دودھ پلانے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ کئی قسم کی چمگادڑیں 30 سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ ابھی تک معلوم چمگادڑ کی عمر 41 برس ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ بوڑھی بھی نہیں ہوتیں۔ سائنسدانوں کی مطابق ان کی طویل عمر کا راز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بوڑھے ہونے والے سیلز کو خود ہی مرمت کر لیتی ہیں۔