وائٹ ہاؤس کی پہلی ہم جنس پرست پریس سیکرٹری کیرین کون ہیں؟
6 مئی 2022
تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی سیاہ فام خاتون کو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے، جن کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے ہے۔ یوں پہلی مرتبہ ایک اعلانیہ ہم جنس پرست خاتون امریکی انتظامیہ کا عوامی چہرہ بنی ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے پانچ مئی جمعرات کے روز کیرین ژاں پیئر کو وائٹ ہاؤس کی نئی پریس سیکرٹری کے طور پر منتخب کرنے کا اعلان کیا۔ کیرین کھل کر اپنے آپ کو ایک ہم جنس پرست خاتون اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی رکن بتاتی ہیں۔ وہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دینے والی پہلی سیاہ فام خاتون بھی ہوں گی۔
موجودہ پریس سیکرٹری جین ساکی 13 مئی کو اپنے عہدے سے دستبردار ہوں گی، جس کے بعد کیرین ژاں پیئر یہ عہدہ سنبھال لیں گی۔ 44 سالہ ژاں پیئر جو بائیڈن کی طرف سے صدارتی عہدہ سنبھالے جانے کے بعد سے ہی وائٹ ہاؤس میں نائب پریس سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔
ژاں پیئر نے سن 2020 میں جو بائیڈن کی انتخابی مہم میں بھی بہت محنت کی تھی اور اس سے پہلے وہ صدر باراک اوباما کے دور میں بھی وائٹ ہاؤس میں بعض اہم ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں۔
نئے عہدے کے لیے ان کے نام کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا، ’’اس مشکل کام کے لیے کیرین کی ذات میں نہ صرف درکار تجربہ موجود ہے بلکہ وہ ہنر مند اور دیانت دار بھی ہیں اور وہ امریکی عوام کی طرف سے بائیڈن انتظامیہ کے کام کے بارے میں روابط اور کمیونیکیشن کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی موجودہ پریس سیکرٹری جین ساکی نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے دور میں اپنی ملازمت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گی۔ انہوں نے اپنی جانشین کی تعریف کرتے ہوئے کیرین ژاں پیئر کو ’سچائی میں اپنی ساتھی‘ قرار دیا۔
جین ساکی نے کہا کہ ژاں پیئر اس عہدے پر فائز ہونے والی ’’پہلی سیاہ فام خاتون ہیں اور وہ اس منصب پر فائز ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی شخصیت بھی ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’نمائندگی کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور وہ بہت سے لوگوں کی آواز بننے کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کو یہ بھی دکھائیں گی کہ جب آپ محنت کرتے ہیں اور بڑے خواب دیکھتے ہیں، تو حقیقت میں ان کی تعبیر بھی ممکن ہوتی ہے۔‘‘
پانچ مئی کو صدر بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں اوول آفس کی ایک میٹنگ میں ژاں پیئر کو اس اہم عہدے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وہ تب تک اپنے اس عہدے کے لیے منتخب کیے جانے کی اہمیت کو ’ہضم کرنے کی کوشش‘ میں تھیں۔
انہوں نے کہا، ’’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اور ابھی تک یہ لمحہ میری ذات میں ضم نہیں ہو پایا۔ یہ ایک بہت ہی جذباتی نوعیت کا دن ہے۔‘‘
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ امریکی نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں، تو کیرین ژاں پیئر نے کہا، ’’آپ جو کچھ بھی بننا چاہتے ہیں، اگر اس کے بارے میں آپ کے اندر جذبہ اور ولولہ موجود ہے، آپ اپنی منزل کے حصول کے لیے اگر کافی محنت کرتے ہیں، تو جان لیجیے کہ آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی ضرور ملے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ راستے میں کئی بار ’آپ کو گرا بھی دیا جائے گا اور آپ کے لیے مشکل وقت بھی آئے گا، اور یہ سفر ہر وقت آسان بھی نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے انعامات بہت حیرت انگیز ہیں، خاص طور پر اگر آپ اپنے ساتھ سچے رہیں۔‘‘
کیرین ژاں پیئر سے پہلے جوڈی اسمتھ نامی ایک اور سیاہ فام خاتون سن 1991 میں جارج ایچ ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سیکرٹری رہ چکی ہیں۔
کیرین ژاں پیئر ایک فرانسیسی نژاد امریکی شہری ہیں اور وہ 1977ء میں ہیٹی سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن کے گھرانے میں فرانسیسی علاقے مارٹینیک میں پیدا ہوئی تھیں۔
ص ز / م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔