1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

وائٹ ہاؤس کے صحافیوں پر حملے اور اثرات

13 دسمبر 2025

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو فیک نیوز اور جھوٹا قرار دینے کے سلسلہ نیا نہیں۔ لیکن اس کے امریکی صحافتی آزادی پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں؟

وائٹ ہاؤس کی ترجمان
وائٹ ہاؤس کی ترجمان بھی صحافیوں پر حملوں میں شامل رہی ہیںتصویر: Celal Güneş/Anadolu/picture alliance

ایک امریکی سرکاری ویب سائٹ نے ان صحافیوں اور میڈیا اداروں کی فہرست جاری کی ہے جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ جھوٹا سمجھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام آزاد میڈیا کے لیے خطرہ ہے  اور یوں امریکہ میں جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔

یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ موجودہ امریکی انتظامیہ صحافیوں کے بارے میں زیادہ مثبت رائے نہیں رکھتی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک خاتون رپورٹر، جنہوں نے ان سے جیفری ایپ اسٹین اسکینڈل میں ان کے کردار کے بارے میں سوال کیا، کو ''پِگی‘‘ کہہ کر پکارا۔

اور پیر کے روز ایک پریس بریفنگ میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے کہا کہ ان کے کام کا بڑا حصہ ان ''غلط بیانات‘‘ سے نمٹنے میں لگتا ہے جو وائٹ ہاؤس میں متعین صحافیوں کی جانب سے شائع کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ''جو فیک نیوز اس عمارت سے روزانہ کی بنیاد پر باہر نکلتی ہے، اس سب کے ساتھ چلنا واقعی بہت مشکل ہے۔‘‘

صدر ٹرمپ سخت سوال کرنے والے صحافیوں کو فیک نیوز کہتے رہے ہیںتصویر: Ron Sachs/Newscom World/IMAGO

میڈیا کے لیے وائٹ ہاؤس کی نئی ''ہال آف شیم‘‘ ویب سائٹ

لیوٹ کے بقول رپورٹرز کی جانب سے پھیلائی جانے والی ''فیک نیوز اور حملوں‘‘ کے جواب میں وائٹ ہاؤس نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جس میں ان میڈیا اداروں اور صحافیوں کی فہرست شامل ہے جو حکومت کے مطابق غلط، جانبدار یا گمراہ کن خبریں پھیلاتے ہیں۔

نئی ''میڈیا آفینڈرز‘‘ ویب سائٹ میں ''ہفتے کے مجرم‘‘ اور ''ہال آف شیم‘‘ جیسی اصطلاحات شامل ہیں، جو اب تک چار پیجز پر مشتمل ہے۔ اس میں میڈیا رپورٹس کی درجہ بندی کی گئی ہے، جن میں تعصب، جھوٹ، غلط دعویٰ، بدانتظامی، سیاق و سباق توڑ مروڑ کر، غلط تاثر ، غلط رپورٹنگ، رپورٹ نہ کرنا، اور ''بائیں بازو کی دیوانگی‘‘ شامل ہیں۔

یکم  دسمبر کو جاری کردہ بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اس ویب سائٹ کے ذریعے اس نے ''فیک نیوز میڈیا پر زبردست حملہ‘‘ کیا ہے۔

’’یہ بدنامی کی مہم ہے‘‘، صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم

غیر منافع بخش تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کی امریکہ، کینیڈا اور کیریبین کی پروگرام کوآرڈینیٹر کیتھرین جیکبسن اس صورتحال کو مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں۔

ٹرمپ اے آئی سے بنایا گیا فیک مواد شیئر کر رہے ہیں، کیا یہ قانونی ہے؟

05:33

This browser does not support the video element.

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ویب سائٹ پر استعمال ہونے والی زبان بدنامی کی مہم جیسی دکھائی دیتی ہے، تو غالباً یہ واقعی ایک بدنامی کی مہم ہے۔ اور یہ انتہائی تشویش ناک ہے۔‘‘

وائٹ ہاؤس کی زبان صحافیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے

جیکبسن نے کہا کہ امریکی حکومت کے ذریعے بنائی گئی ایسی ویب سائٹ ''محض زبانی حملوں ہی نہیں، بلکہ حقیقی دنیا میں صحافیوں پر حملوں کے لیے بھی راستہ ہموار کرتی ہے۔‘‘

اس ویب سائٹ میں نہ صرف میڈیا اداروں بلکہ ان رپورٹرز کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے وہ خبر لکھی یا تیار کی ہے جسے حکومت نے ''جرم‘‘ قرار دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ''یہ صحافی دراصل حقائق سامنے لانے اور شفاف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسی زبان ماحول کو مزید کشیدہ بناتی ہے، اور اس سے صحافیوں کی حفاظت کم ہو جاتی ہے۔‘‘

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ، سوشل میڈیا کا کردار

05:46

This browser does not support the video element.

ماہرین کے مطابق یہ اقدام آزاد میڈیا کو دھمکانے کے مترادف ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے گورننس اسٹڈیز کے محقق جوناتھن کاٹز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایسی ویب سائٹ بنانا میڈیا اداروں کو دھمکانے کے برابر ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ اقدام آزادیء اظہار اور آزاد صحافت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ہم بہت غور سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب امریکہ میں پریس کی آزادی کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں