وادیٴ تیراہ میں پاکستانی فوج کا آپریشن تیز تر
24 مارچ 2015منگل کے روز بھی وادیٴ تیراہ میں پاکستان کے جیٹ طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جبکہ بھاری توپخانے کا استعمال بھی کیا گیا۔ اس دوران مزید پانچ دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ وادیٴ تیراہ خیبر ایجنسی کا انتہائی اہم علاقہ ہے، جہاں سے کئی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچا جا سکتا ہے۔ انتہائی دشوار گذار پہاڑی راستوں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے یہاں زمینی آپریشن کی بجائے فضائی کارروائیوں سے زیادہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
تجزیہ نگار اور صحافی ابراہیم شنواری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:”دشوار گذار پہاڑوں کی وجہ سے یہ مشکل ترین آپریشن ہے۔ فضائی آپریشن جلد کامیاب ہو سکتا ہے لیکن زمینی آپریشن میں وقت لگے گا کیونکہ اس علاقے میں عسکریت پسندوں نے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھائی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل باڑہ میں آپریشن کیا گیا، جسے چند ہی دنوں میں صاف کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ تیراہ کا علاقہ اس کے مقابلے میں چھوٹا علاقہ ہے لیکن عسکریت پسندوں نے یہاں کے گھنے جنگلات اور پہاڑوں کے غاروں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں۔ اگرچہ فضائی آپریشن میں ان کے زیادہ تر ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن ان کے مکمل خاتمے میں ابھی وقت لگے گا۔‘‘
اس علاقے سے بارہ ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ علاقہ عسکریت پسندوں کی مضبوط گرفت میں رہا۔ یہ علاقہ پوست (افیون) کی کاشت کے لیے بھی مشہور رہا ہے۔ عسکریت پسندوں نے مقامی لوگوں کو مشروط طور پر پوست کی کاشت کی اجازت دے رکھی تھی تاہم مسلسل جنگ کی وجہ سے یہاں سے قبائلیوں نے نقل مکانی کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کئی سرحدی علاقوں اور دیگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے وہاں مقیم لوگوں نے بھی اپنے علاقوں سے نکل تیراہ میں پناہ لے رکھی ہے۔
عسکریت پسندوں کے مختلف دھڑوں لشکر اسلام ، جماعت الااحرار اور طالبان نے اپنے ٹھکانوں کو محفوظ بنانے کے لیے پورے علاقے میں بارودی سُرنگیں بچھا رکھی ہیں، جس کی وجہ سے فوج کو زمینی آپریشن میں وقت درکار ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ خیبر ایجنسی کی دیگر تحصیلوں میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔ اس آپریشن کے دوران متعدد عسکریت پسندوں نے حکومتی عملدار ی تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے اور جنگ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ نے پاکستان اور افغانستان کی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ خیبر ایجنسی کے راستے پاکستان اور افغانستان کے مابین اربوں کی روایتی اور غیر روایتی تجارت ہوتی ہے تاہم بدامنی کی وجہ سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’ہم لوگ اس آپریشن کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں بھی امن ہو گا۔ اس دہشت گردی کی وجہ سے پختونخوا کے پچانوے فیصد کارخانے بند ہیں، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور یہی بے روزگار نوجوان عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اُٹھائیں۔‘‘
جس طرح عسکریت پسند تنظیمیں آپس میں متحد ہو رہی ہیں، اسی طرح پاکستان، افغانستان اور اتحادی افواج بھی مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے ہی ان علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کر سکتی ہیں۔