وادی کیلاش: ایام حیض کے لیے بنائے گئے مخصوص گھر
16 جون 2020اسی تختی کو نظرانداز کر کے بشالی کے سامنے چند منچلے نوجوان تصویریں بنانے میں مصروف تھے جبکہ علاقہ مکینوں کی بے چینی اور اضطراب دیدنی تھا۔ بی بی پشمیہ، جو اپنی بیٹی کا کھانا لے کر دروازے پر اسے آوازیں لگاتے ہوئے انتظار کر رہی تھیں، کا چہرہ سورج کی تپش سے اتنا لال نہیں ہوا تھا، جتنا ان بے پروا لڑکوں کی اس حرکت سے ہو گیا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہاں لوگ جمع ہو گئے۔ اس بڑے دروازےکے پیچھے بھی کچھ ہلچل شروع ہو گئی تھی۔ وادی کیلاش کا یہ چھوٹا سا گھر خواتین کی جائے حیض تھا، جہاں وہ اپنے مہینے کے مخصوص ایام گزارنے جاتی ہیں۔ چونکہ ان نوجوانوں کا تعلق اس بستی سے نہیں تھا، تو ان کے لیے یہ ایک اچھنبے کی بات تھی کہ حیض کے متعلق کوئی معاشرہ اتنا کھلم کھلا پرچار کیسے کر سکتا ہے؟
ان لڑکوں کے لیے یہ ہضم کر لینا شاید خاصا دشوار تھا کہ کیلاش میں نہ صرف خواتین کے لیے مخصوص ایام گزارنے کا الگ گھر ہے بلکہ وہ اس گھر میں چند دن آزادی سے بغیر کوئی کام کیے گزار سکتی ہیں۔ اہلِ علاقہ نہ صرف اس رسم کی پیروی کرتے ہیں بلکہ اس جگہ سے منسوب تمام قوانین کا بھی احترام بھی کرتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ باقی ملک میں خواتین کو ان مخصوص موضوعات پر بات کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔
پاکستان میں ابھی تک بیشتر دکانوں میں، جن میں بڑے نام نہاد سوپر اسٹورز بھی شامل ہیں اور جہا ں ہر ہر چیز کی طباعت و تشہیر عام ہوتی ہے، وہاں بھی پیڈز چھپا کر ٹرالی میں ڈالنے کے لیے ایک خاکی لفافہ موجود ہوتا ہے اور اگر غلطی سے آپ نے اس لفافے کا استعمال نہیں کیا تو کاؤنٹر پر موجود سیلز پرسن کی چبھتی نگاہوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں، جیسے ماہواری قدرتی عمل نہیں آپ کی ذاتی منشا ہو۔
بھارت، کپڑوں پر داغ لگنے پر تذلیل، لڑکی نے خود کشی کر لی
ہمارے معاشرے میں عورت یا اس کی جسمانی ساخت سے متعلق کوئی بھی آگاہی کی بات کرنا بے شرمی کے زمرے میں آتا ہے۔ اب چاہے وہ بارہویں جماعت میں آیا ہوا تولیدی نظام پر سبق ہو، جسے اساتذہ اکثر پڑھانے سے گریز کرتے ہیں یا ماہواری سے متعلق اسکول میں منعقد ہوئی کوئی باخبری کی مہم، جس کے اختتام پر چند چیزیں آپ کی نظر کی جاتی ہیں، جنہیں لے کر گھر جانے کے بعد پہروں بلکہ دنوں شرمندگی اور احساسِ جرم آسیب کی طرح آپ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔
مجھے قوی یقین ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے والی ہر عورت اس بات سے اتفاق کرے گی کہ اس نے زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر حیض کو چھپانے یا اس سے جڑی کسی بھی بات پر شرمندگی کا سامنا ضرور کیا ہو گا۔ ہمیں بطورِ قوم عادت ہی نہیں ہے چیزوں کو ان کی اصل حالت میں قبول کرنے کی۔
اس ماحول میں جب ماہواری سے متعلق اشیاء کا ٹی وی پر کوئی اشتہار بھی چل جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ فوراﹰ تبدیل کر دیا جائے، جیسے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب پڑوسی ملک کی فلم پیڈمین ریلیز ہوئی تھی تو اسے سینسر بورڈ کی طرف سے پاکستان میں ممنوع موضوع قرار دے کر دکھائے جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
لیکن اب ناگزیر ہے کہ ان مو ضوعات پر، جو ہمارے قدامت پسند معاشرے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں، ان سے منسلک مسائل پر کھل کر بات کی جائے اور لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔ شہری علاقوں میں کچھ حد تک معاملات قابل قبول ہیں لیکن دیہی علاقوں میں صورتحال اس کے بلکل برعکس ہے۔
نیپال میں قدیم ہندو روایت ’چوپاڈی‘ کے خلاف قانون سازی
یہی وجہ ہے کے مخصوص ایام کے حوالے سے ہمارے یہاں کئی خرافاتی باتیں مشہور ہیں، جن کی وجہ سے اکثر لڑکیا ں حفظانِ صحت کے اصول بھی نظر انداز کر دیتی ہیں اور جب وہ بلوغت کے دور میں قدم رکھتی ہیں تو انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس صورتحال سے نمٹنا کیسے ہے؟
اچھنبے کی بات یہ ہے کہ اس تمام معاملے پر پڑھے لکھے افراد کا بھی کردار اتنا ہی نظر آتا ہے، جتنا ان پڑھ لوگوں کا۔ مذہب یا معاشرتی قدرو ں کی آڑ لے کر ان تمام مسائل پر گفتگو سے اجتناب برتا جاتا ہے بلکہ جو آٹے میں نمک برابر لوگ اپنی سی کوشش کر بھی لیں، انہیں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
میرے خیال سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اب پیریڈز کو متنازعہ مضمون بنانا ختم کر دینا چاہیے۔ حیض، تولید، بلوغت اور ایامِ حیض سے قبل ہارمونز میں ہونے والی تبدیلوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو کی جانا ضروری ہے۔