1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادی گلوان کا پتہ لگانے والے غلام رسول گلوان کی کہانی

جاوید اختر، نئی دہلی
22 جون 2020

بھارت اور چین کے درمیان حالیہ عسکری تنازعے کا مرکز گلوان وادی کی تلاش کرنے والے غلام رسول گلوان کے پوتے کو امید ہے کہ یہ تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہوجائے گا۔

Salute Galwan Martyrs says grandson of Rasool Galwan
غلام رسول کے پوتے محمد امین گلوانتصویر: IANS

غلام رسول گلوان نے 1890کی دہائی میں وادی گلوان کا پتہ لگایا تھا جو اس وقت ایک برطانوی مہم جو ٹیم کا حصہ تھے۔

غلام رسول کے پوتے محمد امین گلوان کہتے ہیں کہ ان کے دادا پہلے شخص تھے جو گلوان وادی میں ٹریکنگ کرتے ہوئے اکسائی چن کے علاقے میں پہنچے تھے۔ انہوں نے 1892-93 میں انگریزوں کے ساتھ اس وادی میں ٹریکنگ کی تھی۔ محمد امین کہتے ہیں ”اکسائی چن جانے کے دوران راستے میں موسم خراب ہوگیا اور برطانوی ٹیم کو بچانا مشکل ہوگیا۔ موت ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ لیکن ایسے حالات کے باوجود غلام رسول نے ٹیم کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ ان کے اس کام سے برطانوی کافی خوش ہوئے اور انہوں نے ان سے انعام مانگنے کے لیے کہا۔ اس پر غلام رسول نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے صرف اس نالے/ ندی کا نام میرے نام پر رکھ دیا جائے۔“

محمد امین گلوان کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین نے اس وادی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوچکی ہیں اور بھارتی فوج انہیں ناکام بناچکی ہے۔ محمد امین کا کہنا تھا”چین کی نگاہ 1962 سے ہی اس وادی پر تھی لیکن بھارتی فوجیوں نے انہیں ناکام بنا دیا اب وہ پھر ایسا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کچھ جوان شہید ہوگئے۔ ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔“

خیال رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی جوان ہلاک اور 76زخمی ہوئے تھے۔ چین نے دس بھارتی جوانوں کو اپنے قبضے میں بھی لے لیا تھا جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا۔

غلام رسول گلوان کے پوتے کا کہنا ہے کہ حقیقی کنٹرول لائن پر تنازعہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے اور سب سے بہتر بات یہی ہوگی کہ اس تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرلیا جائے۔

چین نے پہلی مرتبہ سرکاری طورپر دعوی کیا ہے کہ وادی گلوان اس کی سرزمین کا حصہ ہے۔تصویر: Reuters/PLANET LABS INC

محمد امین گلوان کا کہنا ہے کہ وادی گلوان پر چین کا دعوی غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں ”وادی گلوان ہمیشہ سے بھارتی علاقے کا حصہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ چین کے پاس اپنے دعوے کے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے پاس ثبوت ہے۔ میرے دادا وہاں صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ گئے تھے۔“  انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ برطانوی دور حکومت میں تیار کردہ سرکاری گزٹ کو دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وادی گلوان بھارت کا حصہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ لداخ کے مقامی ریونیو ریکارڈ میں بھی گلوان وادی کو ہمیشہ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

انڈین ڈیفنس ریسرچ ونگ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق”لداخ کے رہنے والے غلام رسول گلوان نے گلوان ندی کا پتہ لگایا تھا۔ وہ 1892 میں برطانوی مہم جو ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ ڈن مور کے ساتویں ارل،  ڈن مور مرے کے ساتھ مشن پر تھے کہ یہ ٹیم ایک گھاٹی میں پھنس گئی اور اسے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔  ایسے میں 14 سالہ غلام رسول گلوان اکیلے ہی آگے بڑھتے گئے اور ایک راستہ تلاش کرلیا جو نسبتا ً بہت آسان تھا۔ راستہ تلاش کرنے کے لیے انعام کے طورپر ڈن مور مرے نے ندی کا نام گلوان کے نام پر رکھ دیا۔“

غلام رسوم گلوان نے 1895میں سر ینگ ہسبینڈ کی قیادت والی برطانوی مہم جو ٹیم میں بھی حصہ لیا جس نے لیہہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا۔

ینگ ہسبینڈ نے اپنی خود نوشت ’سروینٹ آف صاحب: اے بک ٹو بی ریڈ الاوڈ‘ میں لکھا ہے کہ غلام رسول گلوان کو خطرناک مہموں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ وہ صرف 12 برس کی عمر سے ہی اس طرح کی مہم میں شامل ہونے لگے تھے۔ چونکہ ان کے گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے چودہ برس کی عمر میں کام کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ دیا۔ انہوں نے ایک قلی اور خچر والے طور پر کام شروع کیا اور تقریباً 35 برس تک برطانوی، اطالوی اور امریکی مہم جو ٹیموں کی مدد کرتے رہے۔ 1917میں انہیں لیہہ میں برطانوی جوائنٹ کمشنر کا چیف اسسٹنٹ بنایا گیا۔

انڈین ڈیفنس ریسرچ ونگ کی طرف سے دی گئی تفصیلات کے مطابق غلام رسول گلوان بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انہیں نئی نئی چیزوں کو سیکھنے کا بہت شوق تھا۔  وہ لداخی کے علاوہ چینی، انگلش، ترکی‘ اردو، کشمیری اور تبتی زبان بھی اچھی طرح بول سکتے تھے۔ غلام رسول گلوان کا تعلق گلوان قبیلے سے تھا۔ کشمیری میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو گلوان کہتے ہیں۔ شاید یہ گلہ بان کی بگڑی شکل ہے۔

یہ بات مشہور ہے کہ غلام رسول کے دادا کرّا گلوان اپنے زمانے کے ’رابن ہڈ‘ تھے۔ اور ڈوگرا راجہ کے فوجیوں نے انہیں گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔ گلوان قبیلہ اس کے بعد لیہہ اور بلتستان منتقل ہوگیا۔ بہت سے گلوانی سنکیانگ کے یارکند علاقے میں بس گئے۔  1925میں 47 برس کی عمرمیں غلام رسول گلوان کی موت ہوگئی۔

دریں اثنا چین نے پہلی مرتبہ سرکاری طورپر دعوی کیا ہے کہ وادی گلوان اس کی سرزمین کا حصہ ہے۔ اس دوران بھارت اور چین کے درمیان لفٹننٹ جنرل کی سطح پرآج بات چیت ہورہی ہے جس میں گلوان وادی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی

03:33

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں