وارداتیے جعلی پیر اور دیوانے غرض مند
15 اپریل 2014![](https://static.dw.com/image/15772631_800.webp)
اس ضمن میں پیش آنے والے تازہ ترین واقعے میں ایک شخص نے گذشتہ روز مبینہ طور پر ایک پیر کے کہنے پر صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری کےنزدیک اپنے دو کم عمر بھانجوں کو قتل اور ایک کو شدید زخمی کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد کے رہائشی ندیم نامی ملزم کو مبینہ طور پر اس کے پیر نے مالی حالات میں بہتری کے لیے اپنے بھانجوں کی قربانی دینے کا کہا تھا۔ اس واقعے سے ایک روز قبل جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں ایک عامل کی ہدایت پر خزانے کی تلاش میں سرنگ کھود کر اس میں اترنے والا نوجوان زندہ دفن ہو گیا تھا۔ مذکورہ دو واقعات سے قبل بھی پاکستانی معاشرے میں اس نوعیت کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔
جعلی پیر اور عامل مخلتف پریشانیوں کے شکار افراد کو مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے انسانی جان لینے کے علاوہ دھکتےانگاروں پر سے گزرنے، رات بھر کسی نہر کے پانی میں یا سوکھے کنوئیں میں کھڑے رہنے، خطرناک جنگلوں اور ریگستانوں میں چلہ کشی کے مشورے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جعلی عاملین اور پیر نذرانوں کی مد میں بھی ان افراد سے نقد رقم اور قیمتی اشیا ء بٹورتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل اور ماہر قانون اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ جعلی پیروں اور عاملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے قانون کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معاشرے میں توہم پرستی اور لالچ کو فروغ دینے پر میڈیا کے کردار کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کیا کیا ملتا ہے اور میڈیا کے اندر اس کو کو ئی پوچھنے والا نہیں کہ ان میں اصلیت کتنی ہے اور وہ شہری جو ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ ہے وہ ان کا شکار ہوجاتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر رضوان تاج کے مطابق جعلی پیروں کے ہتھے چڑھنے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو اپنےمالی حالات اور تنگدستی سے چھٹکارا اور راتوں رات ترقی کے لئے "شارٹ کٹ" اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخلتف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے شکار افراد بھی آسانی سے جعلی پیروں اور عاملوں کا شکار بن جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے ایسے واقعات کی وجہ کچھ بھی ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ریاست کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ ریاست اور معاشرے کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور جن معاشروں کے اندر سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں اس طرح کے جرائم بھی کم نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر باری کے مطابق ایسے معاشروں میں لوگوں کی اخلاقیات بھی بہتر ہے کیونکہ اخلاقیات ہوا میں نہیں ہوتی۔
دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اصلاح احوال کے لئے علماء مشائخ اورمذہبی سکالروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔