1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وارداتیے جعلی پیر اور دیوانے غرض مند

شکور رحیم، اسلام آباد15 اپریل 2014

پاکستان میں جعلی پیروں اور عاملوں کے کہنے پر توہم پرست اور کمزور عقائد رکھنے والے افراد کی جانب سے انسانی جانیں لینے خصوصا کم سن بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

تصویر: 3rd Eye/Reza Sahel

اس ضمن میں پیش آنے والے تازہ ترین واقعے میں ایک شخص نے گذشتہ روز مبینہ طور پر ایک پیر کے کہنے پر صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری کےنزدیک اپنے دو کم عمر بھانجوں کو قتل اور ایک کو شدید زخمی کردیا تھا۔

پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد کے رہائشی ندیم نامی ملزم کو مبینہ طور پر اس کے پیر نے مالی حالات میں بہتری کے لیے اپنے بھانجوں کی قربانی دینے کا کہا تھا۔ اس واقعے سے ایک روز قبل جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں ایک عامل کی ہدایت پر خزانے کی تلاش میں سرنگ کھود کر اس میں اترنے والا نوجوان زندہ دفن ہو گیا تھا۔ مذکورہ دو واقعات سے قبل بھی پاکستانی معاشرے میں اس نوعیت کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں جعلی پیروں اور عاملوں کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہےتصویر: 3rd Eye/Musafer

جعلی پیر اور عامل مخلتف پریشانیوں کے شکار افراد کو مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے انسانی جان لینے کے علاوہ دھکتےانگاروں پر سے گزرنے، رات بھر کسی نہر کے پانی میں یا سوکھے کنوئیں میں کھڑے رہنے، خطرناک جنگلوں اور ریگستانوں میں چلہ کشی کے مشورے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جعلی عاملین اور پیر نذرانوں کی مد میں بھی ان افراد سے نقد رقم اور قیمتی اشیا ء بٹورتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل اور ماہر قانون اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ جعلی پیروں اور عاملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے قانون کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معاشرے میں توہم پرستی اور لالچ کو فروغ دینے پر میڈیا کے کردار کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کیا کیا ملتا ہے اور میڈیا کے اندر اس کو کو ئی پوچھنے والا نہیں کہ ان میں اصلیت کتنی ہے اور وہ شہری جو ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ ہے وہ ان کا شکار ہوجاتا ہے۔

جعلی عامل جھگیوں وغیرہ میں بھی بیٹھے ملتے ہیںتصویر: 3rd Eye/Reza Sahel

ماہر نفسیات ڈاکٹر رضوان تاج کے مطابق جعلی پیروں کے ہتھے چڑھنے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو اپنےمالی حالات اور تنگدستی سے چھٹکارا اور راتوں رات ترقی کے لئے "شارٹ کٹ" اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخلتف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے شکار افراد بھی آسانی سے جعلی پیروں اور عاملوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے ایسے واقعات کی وجہ کچھ بھی ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ریاست کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ ریاست اور معاشرے کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور جن معاشروں کے اندر سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں اس طرح کے جرائم بھی کم نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر باری کے مطابق ایسے معاشروں میں لوگوں کی اخلاقیات بھی بہتر ہے کیونکہ اخلاقیات ہوا میں نہیں ہوتی۔

دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اصلاح احوال کے لئے علماء مشائخ اورمذہبی سکالروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں