وارسا میں سن 1943 میں قابض نازی جرمن فوج کے خلاف نوجوان یہودیوں نے ہتھیار اٹھا کر موت کو گلے لگایا تھا۔ آج اِس بغاوت کی 75ویں برسی ہے۔ اس موقع پر پولستانی عوام نے کاغذی نرگس کے پھول بھی اپنے سینوں پر خاص طور پر سجائے۔
اشتہار
انیس اپریل سن 1943 کو قابض نازی جرمن فوجیوں کے جبر و ستم کے خلاف پولینڈ کے شہر وارسا کے یہودی محلے کے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے تھے۔ نوجوان یہودیوں کے ہتھیار اٹھانے کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس بغاوت کے شروع ہونے کے بعد نازی جرمن خفیہ پولیس نے یہودی محلے کے قریب سبھی کثیر منزلہ اپارٹمنٹس کو آگ لگا دی تھی۔ تیرہ ہزار کے قریب یہودی اس بغاوت کے دوران ہلاک کر دیے گئے تھے۔ بچ جانے والے یہودیوں کو پولینڈ کے قصبے ٹریبلنکا کے اذیتی مرکز منتقل کر دیا گیا تھا۔
آج اس بغاوت کی 75ویں برسی کے موقع پر وارسا میں خصوصی سائرن بجائے گئے۔ شہر کے گرجا گھروں میں کچھ دیر تک گھڑیال بجانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ اس موقع پر پولستانی ٹیلی وژن، سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کاغذی نرگس کے پھول اپنے سینوں پر سجائے۔ اس موقع پر منعقد کی جانے والی سرکاری تقریب کے مہمانِ خصوصی پولینڈ کے صدر اندرژ ڈُوڈا تھے۔
کاغذی نرگس کے پھولوں کو ہلاک ہونے والے یہودی نوجوانوں کی ماؤں کے آنسووں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پولستانی عوام نے کاغذی نرگس کے پھولوں کو اپنے کپڑوں پر لگا کر ہلاک ہونے والے یہودیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کاغذی نرگس کے پھول سینے پر لگانے کی رسم بظاہر نئی ہے لیکن اس میں مسلسل قوت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
وارسا کے یہودی کوارٹرز میں شلوم فاؤنڈیشن ایسے پودے لگا رہی ہے، جن کے پتے آنسووں سے مشابہ ہوتے ہیں اور اس کی لکڑی سے آنسووں جیسا رس ٹپکتا ہے۔ عربی میں اس پودے کو المصطگی کہتے ہیں۔ یہ پودے خاص طور پر اُن ماؤں کی یاد میں لگائے جا رہے ہیں، جنہوں نے نازی جرمن فوجیوں سے بچانے کے لیے اپنے کمسن بچے کیتھولک چرچ کی تحویل میں دیے تھے۔
وارسا میں آج کے دن کے حوالے سے ایک خصوصی مارچ کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور اس کے شرکاء سابقہ یہودی کوارٹرز میں جمع ہوں گے۔ اس مارچ کا انتظام اینٹی فاشسٹ تنظیموں کی جانب سے کیا گیا ہے۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔