واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان درجہٴ حرارت بڑھنے کا امکان
عبدالستار، اسلام آباد
24 اگست 2017
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات کے جواب میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے سخت بیانات آنے شرو ع ہوگئے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان آنے والے ہفتوں میں درجہ ء حرارت بڑھے گا۔
اشتہار
پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں آج اس بات پر شدید نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا لیکن اس کے کردارکو موثر انداز میں سراہا نہیں گیا۔
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے بھی سینیٹ میں سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان میں جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے امریکی صدر کے الزامات کے جواب میں انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں مشرقی افغانستان میں ہیں، جو پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ خواجہ آصف کا دورہ امریکہ منسوخ کر دیا گیا ہے اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ چین سمیت دیگر دوست ممالک سے رابطے کریں۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے مولانا سمیع الحق ، جنہیں افغان طالبان کا روحانی باپ بھی کہا جاتا ہے، نے آج وفاقی دارالحکومت میں یہ کہا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن نہیں لے گا ۔ سمیع الحق نے تمام خطیبوں سے یہ اپیل کی کہ وہ جمعے کے خطبات میں جہاد کی اہمیت پر درس دیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں اس سارے منظر نامے سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان آنے والے ہفتوں میں درجہ ء حرارت بڑھے گا۔
معروف مصنفہ اور دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھے گی، جو ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’خواجہ آصف کا دورہ منسوخ کرنا اور مولانا سمیع الحق کا اتنا سخت بیان دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پنڈی والے امریکہ کو سخت پیغام دینا چاہتے ہیں۔
عائشہ صدیقہ نے مزید کہا،’’ میرے خیال میں امریکی صدر کے بیان پر چھلانگیں لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ وہ مزید فوجیں افغانستان بھیج رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو ہمارے ملک پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ہمیں ان کے سامنا اپنا کیس رکھنا چاہیے۔ ہمارے سفیر سارا وقت واشنگٹن میں تصویریں ہی کھچواتے رہے۔ انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکہ افغانستان میں تشدد میں کمی چاہتا ہے اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے۔ ہم یہ دونوں کاموں میں امریکہ کی مدد کر سکتے ہیں لیکن ہم چین پر حد سے زیادہ انحصار کر کے سخت موقف اپنا رہے ہیں، جو کوئی دانشمندانہ کام نہیں۔‘‘
معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان کے خیال میں اگر ہم چین اور روس کے آسرے پر یہ کر رہے ہیں ، تو شاید اس سے ہمیں کچھ فائدہ ہوجائے لیکن اگر یہ ایڈونچر ہے تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آ پ کشیدگی بڑھارہے ہیں لیکن کن بنیادوں پر آپ ایسا کر رہے ہیں۔ ملک میں کوئی سیاسی استحکام نہیں ہے۔ ہم چاروں طرف سے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ایسے میں ایڈونچر کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔‘‘
خواجہ آصف کا سخت بیان اور مولانا سمیع الحق کی جو شیلی تقریر اس بات کی عکاس ہے کہ ہم میں فہم و فراست نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم نے ان کی اس جنگ میں کتنی قربانیاں دی۔ اگر کوئی نیٹ ورک واقعی موجود ہے ، تو ہمیں اس پر بات چیت کرنی چاہیے۔ بات چیت کے دروازے بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
لیکن کچھ سیاسی مبصرین حکومتی اکابرین کے سخت بیانات پر خوش ہیں۔
تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایسے آثار ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھے گی لیکن امریکہ کو جلد یہ محسوس ہوگا کہ وہ پاکستان کو اس طرح تنہا نہیں کر سکتا۔ اگر امریکہ نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو خطے میں پاکستان، چین اور روس پہلے ہی صف بندیاں کر رہے ہیں۔ جس میں ایران، ترکی اور وسطی ایشیا کے ممالک میں شامل ہوجائیں گے۔‘‘
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘