واشنگٹن اور کابل، باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر متفق
20 نومبر 2013
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بدھ کی رات اس معاہدے کے متن پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ جان کیری نے مزید کہا، ’’آج رات ہم نے باہمی سکیورٹی کے اس معاہدے کے حتمی متن پر اتفاق کر لیا ہے اور اب یہ افغان لویہ جرگہ میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ امریکا اور افغانستان کے مابین سکیورٹی کے اس مجوزہ معاہدے کو ابھی لویہ جرگہ سے حتمی منظوری ملنا باقی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ واشنگٹن اور کابل، سکیورٹی کے جس معاہدے پر متفق ہوئے ہیں، وہ افغان قبائلی عمائدین کی طرف سے بھی منظور کر لیا جائے گا۔ ایسے امکانات بھی ظاہر کیے گئے ہیں کہ تین ہزار سے زائد افراد پر مشتمل لویہ جرگہ اس معاہدے پر اعتراضات اٹھا سکتا ہے اور اسے مکمل طور پر نامنظور بھی کر سکتا ہے۔ لویہ جرگہ جمعرات کے دن اس معاہدے پر بحث شروع کرے گا۔
جان کیری نے اس مجوزہ معاہدے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا نیٹو فوجی مشن کے بعد افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کا کردار ’محدود‘ ہو گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ 2014ء کے بعد کتنے امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کیے جائیں گے۔ اے ایف پی نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ2014ء کے بعد سولہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں متعین کیے جا سکتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ نیٹو فوجی مشن کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو مکمل استثنا حاصل ہو اور اگر وہ کسی جرم میں مرتکب قرار دیے جاتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ امریکا میں چلایا جائے۔ یہ نکتہ ابھی تک اس معاہدے کی حتمی منظوری کے حوالے سے وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔ تاہم اب اس معاملے پر بظاہر اتفاق رائے ہوتا نظر آ رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایسی میڈیا رپورٹوں کو مسترد کر دیا ہے کہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران افغانستان متعین امریکی فوجیوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر کابل حکومت نے امریکا سے معافی طلب کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ میں اس حوالے سے وضاحت کرنا چاہوں گا کہ صدر حامد کرزئی نے معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ معذرت کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔‘‘