1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واضح نہیں کہ ایران ایٹمی حل چاہتا ہے یا نہیں، امریکا

24 مئی 2021

اس ہفتے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا پانچواں دور جاری ہے۔

Iran - Atomabkommen | US-Staatssekretär Antony Blinken
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

بات چیت سے پہلے ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بِلنکن نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ایران ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ اقدامات اٹھانے کے لیے 'آمادہ اور تیار‘ ہے یا نہیں۔

اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے پروگرام 'دِس ویک‘ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ معاہدے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے اسے ایٹمی معاملات میں کیا کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس حوالے سے ایران کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔  

'امریکا پہلے پابندیاں اٹھائے‘

ایران کا مطالبہ رہا ہے کہ اگر امریکا اس معاہدے کو دوبارہ فعال کرکے اس کا حصہ بننا چاہتا ہے تو اسے پہلے ٹرمپ دور میں ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں اٹھانی ہوں گی۔ سابق صدر ٹرمپ نے سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا کو یک طرفہ طور پر ایران کے ایٹمی  معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔

تصویر: TASS/picture alliance

اس دور میں امریکا اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت قریب ہوگیا تھا۔ صدر ٹرمپ  کا موقف تھا کہ ایران معاہدے کی روح کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور خطے کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

تاہم صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں کے اوباما دور کے اس معاہدے کو بحال کیا جائے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے مطابق اس پر پیش رفت ممکن ہے لیکن اس کا موقف ہے کہ، ''ٹرمپ دور میں عائد کی گئی پابندیاں ہٹانا امریکا کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے‘‘ اور اس بات کو مذاکرات میں لین دین کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں انہوں نے ایران پر عائد معاشی پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ، ''ان سے نہ ٹرمپ کو کچھ حاصل ہوا، نہ آپ کو ہوگا۔‘‘

یورپی مذاکرات کار پُرامید

ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ بلِنکن نے تسلیم کیا کہ صدر ٹرمپ کی ایران پر ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ ڈالنے کی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن صدر ٹرمپ ہوں یا صدر بائیڈن، واشنگٹن کا موقف ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا ناگزیر ہے ورنہ اس سے خطے میں مزید عدم استحکام پھیلے گا۔

تصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

امریکا میں ایران مخالف حلقوں کا خیال ہے کہ تہران جس طرح خطے میں امریکی مفادات کے خلاف سرگرم رہا ہے، اس پر ایٹمی پروگرام کی پاسداری کے لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم دیگر حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کی خواہش کے برعکس ایران سے طاقت کی بجائے سفارتکاری سے نمٹا جائے تو بہتر ہوگا۔

ایران کو امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق تہران معاشی فوائد کے بدلے اپنے ایٹمی پروگرام کی رفتار پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

مذاکرات میں شامل یورپی سفارتکاروں کے مطابق اب تک کی بات چیت میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور امید ہے کہ آنے والے ہفتوں میں معاہدہ طے پا جائے گا۔

ش ج، ع ح (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں