جرمنی آتے ہوئے ایک دس سالہ افغان لڑکا مہدی اپنے خاندان سے بچھڑ گیا۔ والدین سمجھے کہ وہ سمندر میں ڈوب گیا ہے لیکن ایک سال بعد وہ اپنے خاندان سے واپس آن ملا۔ مہدی اس دوران کہاں تھا؟
اشتہار
جرمنی کے شہر ہینوور میں دس سالہ افغان بچہ ایک سال سے زائد عرصے کے بعد اپنے والدین سے واپس آن ملا۔ مہدی جرمنی کی جانب سفر کرتے ہوئے اپنے خاندان سے بچھڑ گیا تھا۔
والدین نے ڈھونڈنے کی کوشش تو کی لیکن انہیں لگا کہ شايد وہ بحیرہ ایجیئن عبور کرتے وقت کئی دیگر تارکین وطن کی طرح سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ اپنے بچے کو مردہ تصور کر کے دل کو تسلی دینے والے والدین کو آخر کار اپنا کھویا ہوا بیٹا ایک سال کے بعد زندہ مل گیا۔
يہ افغان خاندان اپنے پانچ بچوں کے ساتھ جنوری 2015ء میں افغانستان سے جرمنی کے سفر پر نکلا تھا۔ جب وہ لوگ ترکی سے کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کی جانب سفر کرنے کی نیت سے کئی دیگر تارکین وطن کے ساتھ ایک جنگل میں چھپے بیٹھے تھے تو مہدی بھی ان کے ساتھ موجود تھا۔ اس کے بعد افراتفری میں کشتی پر سوار ہونے کی تگ و دو میں مہدی ان سے جدا ہو گیا۔
پناہ گزینوں کے بحران میں جرمنی کا ساتھ چھوڑتے اتحادی
02:20
والدین جس کشتی میں سوار تھے وہ بحفاظت لیسبوس تو پہنچ گئی لیکن پھر انہیں معلوم ہوا کہ مہدی ان کے ہمراہ نہیں ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ پیچھے آنے والی ايک کشتی ڈوب گئی ہے۔ یہ سن کر ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا لیکن انہیں پھر بھی امید تھی کہ شاید مہدی ساحل پر ہی رہ گیا ہو۔
پریشان حال خاندان نے واپس ترکی جا کر مہدی کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سات مہینوں تک والدین اسے ترکی میں تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کوئی سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر انہوں نے آخرکار یہی سوچا کہ شاید مہدی بھی بحیرہ ایجیئن میں ڈوب چکا ہے۔ انہوں نے دوبارہ اپنی منزل یعنی جرمنی کی جانب سفر کرنا شروع کر دیا۔
افغان خاندان جب جرمنی پہنچا تو مہدی کی بہن نے جرمن ریڈ کراس کو اپنے گم شدہ بھائی کو ڈھونڈنے کے لیے رابطہ کیا۔ مہینوں تلاش کرنے کے بعد ریڈ کراس مہدی کو سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں تلاش کرنے میں کامیاب رہی۔ مکمل تصدیق ہونے کے بعد جب یہ اطلاع والدین تک پہنچائی گئی تو یہ خبر ان کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھی۔
جرمن ریڈ کراس نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ مہدی جرمنی کے شہر ہینوور کے ایئر پورٹ پر لایا گیا جہاں اس کے والدین بھی موجود تھے۔ مہدی اب اپنے خاندان کے ساتھ باڈ بوڈن ٹائش نامی جرمن شہر جائے گا جہاں اس کے والدین ایک مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘