1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

والد کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، ساجد سدپارہ

8 فروری 2021

پاکستان کے مایہ ناز کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے دو غیرملکی ساتھی جمعے کو کے ٹو کی چوٹی کے قریب پہنچنے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔

محمد علی سدپارہ
تصویر: Marianna Zanatta Sports Marketing Management/AFP

پیر کی صبح پاکستان آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں نے مسلسل تیسرے روز پہاڑ پر ان کی تلاش میں چکر لگائے۔ تاہم ان کے عزیز اقارب اور دیگر کوہ پیماؤں میں ان کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ کوہ پیماؤں کا اتنی اونچائی پر سخت سردی میں زندہ بچنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اب ریسکو آپریشن کا مقصد کوہ پیماؤں کی لاشیں بازیاب کرنا ہونا چاہییں ورنہ 8000 ہزار میٹر کی اونچائی پر برف میں دو تین دن زندہ رہنا کے امکانات نہ ہونے کے برار ہیں۔"

ساجد علی سدپارہ خود بھی نوجوان کوہ پیما ہیں اور شروع میں کے ٹو کی اس مہم کا حصہ تھے۔ لیکن چوٹی کے قریب سب سے خطرناک مرحلے "باٹل نیک" پہنچنے پر ان کے آکسیجن سلینڈر میں خرابی پیدا ہوگئی، جس کے بعد انہوں نے وہیں رک کر کئی گھنٹے تک اپنے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کا انتظار کیا۔ لیکن جب بیس گھنٹے بعد بھی وہ نہ آئے تو ساجد سدپارہ کو واپسی کا راستہ لینا پڑا۔

اس مشن میں  محمد علی سدپارہ کے ساتھ چِلی کے جے پی موہر اور آئیس لینڈ کے جان سنوری شامل تھے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکٹری جنرل کرار حیدری  کا کہنا ہے کہ ہفتے اور اتوار کے ریسکیو مشن ناکام لوٹے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ"معجزے ہو جاتے ہیں اور کسی معجزے کی امید ابھی موجود ہے۔" توقع ہے کہ پاکستانی حکام اپنے ریسکو مشن کے حوالے سے پیر کو شام گئے کوئی اعلامیہ جاری کریں گے۔

تصویر: SALTORO_SUMMIT_HANDOUT/dpa/picture alliance

خونی پہاڑ

کے ٹو ایورسٹ کے بعد دنیا کا بلند ترین پہاڑ ہے لیکن ایورسٹ کی نسبت کہیں زیادہ کٹھن اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ پہاڑ "خونی پہاڑ" یا "کِلرماؤنٹن" کے نام سے مشہور ہے۔ اسے سر کرنے کی کوشش میں دنیا بھر سے نوے سے زائد کوہ پیما اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

برف اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے سردیوں میں اس کی چوٹی سر کرنا اور بھی خطرناک ہوتا ہے۔ سردیوں میں اسے سر کرنے کے لیے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی غیرمعمولی دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے اور ساٹھ کوہ پیماؤں پر مشتمل چار ٹیمیں پہاڑ پر اپنی قسمت آزمانے کے لیے پہنچی تھیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران بلغاریہ، اسپین اور ایک روسی۔امریکی کوہ پیما اس پہاڑ پر اپنے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ چند ہفتے قبل نيپالی کوہ پيماؤں نے موسم سرما ميں کے ٹو سر کرکے نئی تاريخ رقم کی تھی۔

ش ج، ع ح (اے پی، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں