1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’وال اسٹریٹ‘ مظاہرین کون ہیں؟

9 اکتوبر 2011

امریکی دارالحکومت واشنگٹن، معاشی شہ رگ نیویارک اور ملک کی بیشتر ریاستوں کے مرکزی شہر آج کل متبادل معاشی نظام کے حامیوں کی تحریک کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ مظاہرین کون ہیں اور یہ کیا چاہتے ہیں؟

تصویر: dapd

گو کہ مظاہرین مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جو قدر ان میں سے بیشتر میں مشترک ہے وہ ان کا بائیں بازو کے نظریات کے قریب ہونا اور عالمی سرمایہ داری نظام سے بے زاری ہے۔ یہ مظاہرین خود کو ’نناوے فیصد‘ قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی سرمایہ دار، مالیاتی ادارے اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والے ’ایک فیصد‘ ان کے جائز حقوق ان کو نہیں دے رہے۔

'’آکوپائی وال اسٹریٹ‘ تحریک، جس کا مرکز نیویارک کی وال اسٹریٹ کا وہ علاقہ ہے جو کہ امریکی معیشت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، اس تحریک کا گڑھ ہے۔ ابتداء میں اس تحریک کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جامعات اور کالجوں کے مثالیت پسند نوجوانوں کی ایک تحریک ہے جو کہ جلد دم توڑ جائے گی، تاہم بعد ازاں اس تحریک میں مختلف تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں نے بھی شرکت اختیار کرنا شروع کردی۔ یہ پر امن تحریک خاصے جوش و خروش سے اب بھی جاری ہے۔

مظاہرین کا مؤقف ہے کہ امریکی معاشی نظام جس طرح چلایا جا رہا ہے وہ امریکی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہےتصویر: dapd

  خیال رہے کہ امریکہ اس وقت شدید نوعیت کے مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ یورپ کے کئی ممالک بھی اسی قسم کے بحران کا شکار ہیں۔ یہ ممالک ’بچتی‘ پروگراموں کے تحت سماجی شعبوں میں کٹوتیاں کر رہے ہیں۔ یونان، برطانیہ، پرتگال اور کئی یورپی ممالک میں ان بچتی اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں یہ ایک نیا واقعہ ہے۔ یہ مظاہرین نہ صرف یہ کہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ یہ ایک متبادل معاشی نظام کے لیے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

نیویارک کے مظاہرے میں شامل چھیاسٹھ سالہ استانی نینسی سونیئر کہتی ہیں کہ وہ زندگی میں پہلی بار کسی مظاہرے میں شریک ہوئی ہیں۔ ’’سول رائٹس تحریک کے وقت میں بہت چھوٹی تھی۔ ویتنام جنگ کے خلاف مظاہروں کے وقت میری تمام توجہ پڑھائی پر مرکوز تھی۔ لیکن اب میں اس مظاہرے میں شریک ہو کر اپنی آواز حکام تک پہنچانا چاہتی ہوں۔‘‘

ہیتھر گوٹنی فورڈہیم یونیورسٹی میں عمرانیات کے استاد ہیں۔ ان کا اس تحریک کے بارے میں کچھ یہ کہنا ہے: ’’یہ تحریک اس سے کہیں زیادہ متنوع ہے جتنا کہ اس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے۔ میں نے کئی ایسے افراد دیکھے ہیں جو پہلی بار کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان میں نرسیں بھی ہیں اور لائبریریئنز بھی۔‘‘

امریکی سکیورٹی فورسز نے اس تحریک کے دوران سینکڑوں افراد کو گرفتار بھی کیا ہےتصویر: dapd

چیری والٹرز نامی ایک خاتون کا کہنا ہے، ’’میں مشیگن سے یہاں اس لیے آئی ہوں کہ بیس فیصد مراعت یافتہ طبقے نے اکثریت پر ایک طبقاتی جنگ مسلط کر دی ہے۔‘‘

مظاہرین کا مؤقف ہے کہ امریکی معاشی نظام جس طرح چلایا جا رہا ہے وہ امریکی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس نوعیت کے مظاہرے کینیڈا اور دیگر ملکوں میں بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی ’آکوپائی وال اسٹریٹ‘ تحریک سے متاثر ہو کر ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے جن شہروں میں بھی یہ مظاہرہے ہوتے ہیں وہاں اس کو ’آکوپائی‘ یا ’قبضہ کر لو‘ اور شہر کا نام جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے، جیسا کہ ’آکوپائی سی ایٹل‘۔ 

امریکی سکیورٹی فورسز نے اس تحریک کے دوران سینکڑوں افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔

رپورٹ: شامل شمس⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں