بھارتی فوج نے ايک ويڈيو پيغام ميں اپنے ملک کے شہريوں کو متنبہ کيا ہے کہ چينی ہيکرز سماجی رابطے کی ايک ايپليکيشن ’واٹس ايپ‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے، ان کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کر رہے ہيں۔
اشتہار
ايک تازہ پيش رفت ميں بھارتی فوج نے چينی ہيکرز پر ’واٹس ايپ‘ کے ذريعے بھارتی شہريوں کی جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے۔ يہ الزام مائیکرو بلاگنگ کی ويب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ ايک ويڈيو ميں عائد کیا گيا ہے۔ يہ ويڈيو بھارتی فوج کے ’ايڈيشنل ڈائريکٹوريٹ جنرل آف پبلک انٹر فيس‘ کے ذرائع سے جاری کی گئی ہے اور اس ميں شہريوں کو خبردار کيا گيا ہے کہ جاسوسی کے ليے چينی شہريوں کا تازہ ترين ہتھيار اب تحريری پيغامات بھيجنے والی يہ ايپليکيشن ہے۔ سائبر سکيورٹی کے ماہرين کے مطابق واٹس ايپ ہيک کرنا کوئی ’راکٹ سائنس‘ يعنی کوئی مشکل کام نہيں۔
اس ويڈيو ميں عوام کو ہدايت دی گئی ہے کہ چين کے کوڈ (+86) سے شروع ہونے والے نمبرز مختلف واٹس ايپ گروپوں ميں شامل ہو کر لوگوں کے ذاتی ڈيٹا تک رسائی حاصل کر ليتے ہيں۔ عوام سے يہ بھی کہا گيا ہے کہ وہ اس ايپليکيشن پر باقاعدگی سے اپنے گروپوں کی نگرانی کيا کريں اور ايسے نمبررز کو خارج کريں، جن کی شناخت ممکن نہيں۔ اس ويڈيو ميں مزيد کہا گيا ہے، ’’اگر آپ اپنا نمبر تبديل کريں، تو پرانا سم کارڈ تباہ کريں اور اپنے پرانے فون سے واٹس ايپ کو بھی ہٹا ديں۔‘‘ اس ويڈيو کو بھارتی وزارت دفاع نے بھی ری ٹوئيٹ کيا ہے۔
ويڈيو ميں البتہ يہ واضح نہيں کيا گيا کہ ہيکرز کو چينی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے يا نہيں۔ بھارتی فوج نے چين کے ساتھ اپنی سرحد پر تعينات فوجيوں کو ہدايت جاری کی تھی کہ وہ واٹس ايپ اور ايسی ديگر کئی ايپليکيشنز کا استعمال ترک کر دیں۔
بھارت اور چين سن 1962 ميں ايک جنگ لڑ چکے ہيں اور دونوں اقتصادی قوتوں کے مابين سفارتی تعلقات چند ماہ پہلے بھی کشيدہ ہو گئے تھے۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔